جس شخص نے اپنے بچپن میں 7ستمبر 1965ء کو پاکستان ایئر فورس کے عالمی شہرت یافتہ پائلٹ ایم ایم ایم کی سرگودھا کی فضائوں میں انڈین ہنٹر فائٹر طیاروں کے خلاف ڈاگ فائٹ اپنی آنکھوں سے دیکھی ہو وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہو سکتا کہ اسی پاکستان ایئر فورس نے بالا کوٹ میں پرانے دشمن کے طیاروں کو بچ کے جانے دیا ہو گا۔ ذرا یہ ایمان افروز واقعہ آپ کو یاد دلا دوں۔60سکینڈ میں دشمن کے پانچ فائٹر طیاروں کو مار گرانا عالمی ہوا بازی کی تاریخ کا منفرد اور انوکھا واقعہ ہے۔ جنگ ستمبر شروع ہو چکی تھی۔ ایم ایم عالم سرگودھا کی فضا میں 7ستمبر کے روز اپنی ٹیم کے ہمراہ معمول کی حفاظتی پرواز پر تھے کہ انہیں کنٹرول ٹاور سے دشمنی کے جہازوں کی موجودگی اور ان سے نمٹنے کی ہدایت کی گئی۔ایم ایم عالم نے اپنے دائیں دشمن کے فائٹر کو دیکھتے ہی اپنی گن کا بٹن دبا دیا اس اثناء میں انہیں تین اور بھارتی طیارے دکھائی دیے انہوں نے ان کا بھی نشانہ لیا اور پھر ان کی نظر پانچویں طیارے پر پڑی جس کو بھی انہوں نے مار گرایا۔ پلٹنے جھپٹنے اور جھپٹ کر پلٹنے کی ساری کارروائی میں صرف 60سکینڈ لگے اور پانچوں بھارتی طیارے سرگودھا کے کھیتوں میں ڈھیر ہو چکے تھے۔ جنگ کا آغاز ہوتے ہی پہلا قتل سچائی کا ہوتا ہے۔ سچائی کے قاتلوں میں بھارت کا پہلا نمبر ہے۔ گزشتہ 24گھنٹوں کا جو پلندہ بھارتی میڈیا کو تھمایا گیا ہے اسے انڈین اینکرز اس شدو مد سے اچھال رہے ہیں۔ گویا وہ خود بھارتی جہازوں کی کاک پٹ میں موجود تھے اور سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ بھارتی میڈیا دعویٰ کر رہا ہے کہ بھارتی جنگی جہاز 21منٹ پاکستانی فضائوں میں رہے اور انہوں نے تین مقامات پر ’’دہشت گردی‘‘ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ 12بھارتی طیاروں نے بالا کوٹ کے قریب جیش محمد کے ایک تربیتی مرکز کو نشانہ بنایا جس میں 350افراد مارے گئے جن میں مسعود اظہر کے بہنوئی بھی شامل تھے۔ یہ دعویٰ سفید جھوٹ ہے میرے ایک دیرینہ دوست گلاب خان بالا کوٹ کے قریب اگی کے مقام کے رہائشی ہیں۔ گلاب خان نہایت ثقہ شخصیت ہیں۔ انہوں نے بنفس نفیس جابہ جا کر تحقیق کی اور مجھے بتایا کہ انڈیا نے 4بم گرائے مگر نہ وہاں کوئی تربیتی مرکز تھا نہ کوئی مدرسہ تھا وہ جنگوں میں بم گرا کر چلے گئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہاں کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ یہی بات پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہی کہ بھارت کے جنگی طیارے آزاد کشمیر کے علاقے میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چار ناٹیکل میں اندر آئے اور جونہی انہیں پاکستان ایئر فورس کے طیاروں نے للکارا تو وہ افراتفری میں بالا کوٹ کے قریب کھلی جگہ پر 4بم گرا کر بھاگ گئے۔ جب کبھی بھارت کے اندر یا مقبوضہ کشمیر کے اندر پلوامہ جیسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو بھارت اپنے گھر کی خبر لینے کے بجائے کشمیر میں اپنے قاتلانہ اور انسانیت سوز رویے پر نظر ثانی کرنے یا اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے تیروں اور توپوں کا رخ پاکستان کی طرف کر دیتا ہے اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ بھارت پر تمام تر عالمی اور خود بھارت کے اندر کا دانشورانہ دبائو ایسا تھا کہ جس سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ نریندر مودی محض انتخابی جیت کے لئے بھارت کو آتش و آہن کے حوالے نہیں کریں گے اور اپنے ملک کو جنگی جنون کے شعلوں کی نذر نہیں کریں گے مگر جب ذاتی طمع اور لالچ نے آپ کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہو تو پھر محدود سوچ اپروچ رکھنے والے قائدین سب کچھ دائو پر لگا دیتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ جنگوں اور جنگوں کی بھڑتی ہوئی آگ کی ابتدا ایک معمولی سی چنگاری سے ہوتی ہے۔اپنے ہی شہریوں کو نذر آتش کرنے والے مودی کو اس تاریخی شعور کا ادراک کہاں ہو گا اس لئے مودی نے بالا کوٹ میں چنگاری پھینک دی اور اب پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اس کا جواب ضرور دے گا مگر کیسے دے گا‘ کب دے گا اور کہاں دے گا اس کے بارے میں پہلے سے کچھ نہیں بتایا جائے گا صرف بھارت کو سرپرائز دیا جائے گا۔ جہاں تک اسلامی تنظیم برائے تعاون کا تعلق ہے تو اسے اس وقت مثالی اسلامی اخوت کا حق ادا کرتے ہوئے پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا چاہیے تھا مگر ہو اس کے برخلاف رہا ہے۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں اسلامی تنظیم کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر کشمیر میں قتل و غارت گری کرنے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے والے بھارت کی وزیر خارجہ کو گیسٹ آف آنر کے طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ میں نوجوان جنریشن کو یاد دلا دوں کہ 1969ء میں مسجد اقصیٰ کو جلانے کی سازش کے خلاف شاہ فیصل مرحوم نے ساری اسلامی دنیا کا بھر پور ردعمل دینے کے لئے مراکش کے شہر رباط میں کانفرنس بلانے کی تجویز دی۔ اس موقع پر مصر‘ عراق اور شام وغیرہ نے کانفرنس کو صرف عربوں تک محدود کرنے پر اصرار کیا مگر شاہ فیصل نے ’’نحن العرب‘‘ کے نعرے کی نفی کرتے ہوئے سارے اسلامی ممالک کو دعوت دی۔ اس موقع پر چند مہربانوں کی نوازش سے بھارت کو بھی مدعو کر لیا گیا۔ اس وقت تک یحییٰ خان رباط پہنچ چکے تھے انہیں جب بھارت کی شمولیت کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی قیام گاہ سے باہر آنے اور کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا اور کہا جب تک بھارت کو کانفرنس سے خارج نہیں کیا جاتا اس وقت تک میں اجلاس میں شرکت نہیں کروں گا۔ 1969ء میں مسلمانوں کی سب سے بڑی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا لہٰذا پاکستان کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا اور یحییٰ خان نے اسلامی سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ پھر کئی مواقع پر بھارت کو اسلامی کانفرنس کے اجلاسوں میں بلانے کی کوشش کی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق نے مجھے بتایا کہ 2002ء میں وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھنے والی کشیدگی میں کمی لانے کے ایک مشن پر عرب ممالک کے دورے پر تھے۔ اسی دورے میں ان کی ایک عرب سربراہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی کے آئندہ اجلاس میں بھارت کو شمولیت کی دعوت دی جائے۔ اعجاز الحق نے او آئی سی میں بھارت کی شمولیت سے صاف انکار کر دیا۔ ابوظہبی میں منعقد ہونے والے اسلامی تنظیم کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ کو دعوت دے کر اسلامی کانفرنس کے تشخص کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اسلامی تنظیم کو بھارت پر دبائو ڈال کر نہتے کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں پر کئے جانے والے ظلم و ستم کو بند کرانا چاہیے نہ پاکستان کو اپنا اصولی موقف برقرار رکھتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ پر واضح کر دینا چاہیے کہ اگر سشما سوراج اسلامی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کریں گی تو پاکستان اس اجلاس کا بائیکاٹ کرے گا۔ پس تحریر: کالم تحریر کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ آج بروز بدھ پاکستان نے اپنا وعدہ نبھایا اور بھارتی جہازوں کی دراندازی پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے دو بھارتی جنگی جہازوں کو مار گرایا ہے۔ مودی ایک بار پھر سوچیں کہ روایتی جنگ تباہی اور ایٹمی جنگ کے بعد ایسی تباہی ہو گی کہ باقی کچھ نہیں بچے گا۔