کوئی جگنو ہے کہیں پر نہ ستارا کوئی شب تیرہ کے گزرنے کا اشارہ کوئی اک محبت ہے کہ شرمندہ آداب نہیں اس کے پیچھے کوئی مکتب نہ ادارہ کوئی اس وقت صورت حال کو بیان کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ سب کچھ خود ہی آئینہ ہوتا دکھائی دیتا ہے اور پھر بقول خدائے سخن کے’آنکھ ہو تو آئینہ خانہ ہے دہرمنہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ‘ کچھ کھل نہیں رہا۔ عقدہ کشائی کرنے والے کچھ اور گانٹھیں ڈال بیٹھے ہیں یا پھر’’مٹ گیا کھلنے میں اس عقدہ کا وا ہو جانا۔ یہ قتل و غارت بھی نہ جانے کہاں رکے گی کہ مائیں بلال جیسے چاند کھو رہی ہیں۔ دشمن گھات میں ہے اور ہمارا نظریاتی تشخص اور پہچان کھو رہی ہے۔ہماری اداسی اور غم میں تو عالمی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔ مرسی کی شہادت کا سنا تو جیسے کسی نے دل کو ہاتھ ڈال دیا۔ کیا یہ اللہ کی مشیت ہے کہ جسے زندہ رہنا چاہیے وہ رخصت ہو رہا ہے۔ ویسے تو یہ بات درست ہے کہ: وقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ بات تو ہے ہی کردار کی کہ اس میں دار بھی ہے’’جو تنی تھی ہماری گردن تھی جو کٹا ہے وہ سر ہمارا ہے‘‘ دنیا دار اس مرتبہ کو کہاں سمجھیں گے یہ شہادتوں کی کہانی ہے جو لہو سے لکھی جاتی ہے۔ یہ مقدر کے درخشاں ستارے ہیں جو استقبال کے آسمان بناتے ہیں۔ یہاں اپیل بھی نہیں کی جاتی اور ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے‘‘ یہ قربانیاں بنگلہ دیش سے مصر تک پھیلی ہوئی ہیں’’یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے۔ لوگ آسان سمجھتے ہیں۔ مسلماں ہونا ’’فیض نے کہا تھا: اتنے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے ناصحو پندگرو راہگزر تو دیکھو رات میں حامد میر کو سن رہا تھا تو اس کی باتیں سچی اور کھری ہی نہیں ایک عظیم آدمی کی جدوجہد اور نظریے کی تحسین اور داد بھی تھیں اس نے کسی بھی ابہام اور اشکال کے بغیر امریکہ اور اس حواریوں کا ایجنڈا بیان کر دیا اور پھر اس نے اپنا وہ انٹرویو بھی دکھایا جو اس نے ان کے وزیر خارجہ سے کیا تھا۔ مختصراً یہ کہ امریکہ نے محمد مرسی کی جمہوریت کو ختم کرنے میں مکمل منافقت کا ثبوت دیا۔ السیسی کو امریکہ اور اسرائیل اپنی سپورٹ سے لے کر آئے۔ طرفہ تماشا یہ کہ سعودیہ نے غالباً تین یا چار ارب ڈالر السیسی کو امداد کے طور پر دیے تھے کتنی شدت سے قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا تھا اور مصر کے واحد جمہوری سربراہ کو ہٹا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ پھریہ بات بھی حامد نے درست کہی کہ السیسی کس قدر بزدل ہے کہ نہ صرف وہ زندہ مرسی سے ڈرتا تھا بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی اتنا خوفزدہ تھا کہ محمد مرسی کے دو بیٹوں کی موجودگی میں انتہائی خفیہ انداز میں محمد مرسی کو دفن کر دیا گیا۔ دوسرے گھر والوں کو منہ دیکھنے کا موقع بھی نہیں دیا۔ اصل میں محمد مرسی ایک شخص نہیں وہ ایک نظریہ ہے اور نظریہ کبھی نہیں مرتا۔ دنیا بھر میں محمد مرسی کی غائبانہ نمازجنازہ پڑھائی گئی ایک دنیا ہے جو اس سچائی اور خیر کی معترف ہے۔ مرسی نہ صرف یہ کہ پہلا جمہوری سربراہ تھا وہ حافظ قرآن بھی تھا۔ اس کا کہنا کہ اسے جیل میں قرآن پاک مہیا نہیں کیا گیا مگروہ تو چالیس سال سے قرآن کو اپنے سینے میں اٹھائے ہوئے ہے وہ تو صرف قرآن پاک کو چھونا چاہتا تھا اللہ اللہ یہ کس مرتبے کے لوگ ہیں۔ مولانا مودودی یاد آئے کہ لوگوں کے اصرار پر کہ اپیل کر دیں کہا ’’امام اپیل نہیں کرتا‘‘ ایسی ہی شخصیت عبدالستار خاں نیازی کہ یہ یاد آئی ہے۔ محمد مرسی لیاقت کے اعتبار سے بھی لائق فائق تھے اور انجینئرنگ کا بھرپور علم رکھتے تھے۔ مذہبی معاملے میں تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بتایا گیا کہ ان کی تنخواہ کم سے کم تھی یعنی دس ہزار ڈالر سالانہ مگر انہوں نے یہ تنخواہ لی نہیں۔ لوگ ان کے بارے میں رطب اللسان ہیں وہ خطاب کرتے ہوئے اور اگر اذان ہونے لگتی تو نہ صرف خاموش ہو جاتے بلکہ اذان کا جواب دیتے۔ تلاوت کرتے تو ان کو کتنوں نے سنا اور سر دھنتے رہے۔ واہ واہ جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے: روشنی بن کے اندھیروں میں اتر جاتے ہیں ہم وہی لوگ ہیںجو جاں سے گزر جاتے ہیں امریکہ ہو یا اس کے حواری وہ بڑے وجی لینٹ ہیں۔ وہ اسلام کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم فریب خوردہ مسلمان خود ہی اسلام کے لئے خطرہ ہیں۔ امریکہ کو جمہوریت پسند ہے مگر جمہوریت کے ذریعہ اسلام کو وہ سخت ناپسند کرتا ہے اسے آزادی پسند ہے مگر کسی کو یہ آزادی نہیں کہ وہ سکارف پہنے یا کوئی اور اسلام کے شعائر اختیار کرے۔ اس کے مفادات کو سپورٹ کرنے والی آمریت بھی اسے پسند ہے فوج بھی اس کی آپشن ٹھہرتی ہے۔ کرپٹ حکمران اسے وارا کھاتے ہیں کہ اسی کے ذریعہ اس نے اسلام کو گھائو لگانا ہوتا ہے کوئی غلطی سے مسلمانوں کا خیر خوا نکل آئے تو اسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ محمد مرسی کی شہادت پر ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی اپنا نقصان ہوا !اور یک گو نہ دل گرفتگی یہ کہ ہم کچھ کرنے کے قابل بھی نہیں حکومت پاکستان یک طرف سے ایسی خاموشی کہ شرمندگی ہوتی ہے۔ محمد مرسی کو ایک گوہر نایاب تھا۔ یہ لوگ اسلام کا اصل چہرہ ہیں جس کو دیکھنے کی تاب اہل کفر نہیں لگا سکتے۔ محمد مرسی کے نظریہ حقانیت زبان حال سے پکار رہی ہے۔ مصر کے مسلمان محمد مرسی کی شہادت پر بے حد مغموم ہیں۔ بے ضمیر اور غدار لوگ امریکہ کے ہاتھوں میں کھیل کر چند روزہ زندگی کو آسودہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر ’’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘ اس دین کی حقیقت ہی کیا ایک بکری کے مرے ہوئے بچے سے بھی کم۔ یہ تو آزمائش ہے بڑے لوگوں کی آزمائش بھی تو بڑی ہوتی ہے۔ حسن البنا ہو‘ سید قطب شہید‘ مولانا مودودی ‘ رشید رضا‘ مطیع الرحمن اور محمد مرسی ایک ہی کہکشاں کے ستارے ہیں۔ مرنے والوں پر حیرتیں کیسی موت آسان ہو گئی ہو گی ،اہل دہر اس مقام سے آشنا ہی نہیں۔ یہ لوگ اسلام کے چہرے کا جھومر ہیں۔ تاریخ کے سنہرے باب ہیں ؎ ایک احساس کہ تلوار سے آگے نکلا درد میرا مرے اظہار سے آگے نکلا