وہ لوگ جو اٹھارہویں ترمیم کے خلاف بول رہے ہیں‘ ان کا دکھڑا کچھ اور ہے۔ تاہم میں نے اس وقت ہی اپنے تحفظات کا اظہار کردیا تھا جب یہ ترمیم کی جارہی تھی۔ ہم دونوں میں کیا فرق ہے‘ اس کاذکر تومیں بعد میں کردوں گا‘ اس وقت میں پہلے چند دوسری باتیںکرنا چاہتا ہوں۔ میرے بھائی اوریا مقبول جان نے اس مسئلے کو چھیڑا ہے تو دل میں گئے دنوں کے کئی سوال تازہ ہوگئے ہیں۔ اوریا کے بارے میں کہا کرتا ہوں کہ وہ قوت ایمانی میں مجھ سے بہت آگے ہیں۔ اگروہ ثابت کرنا چاہیں کہ اٹھارہویں ترمیم یہودی سامراج کی سازش ہے تو چٹکی بجاتے ہی ثابت کردے گا۔ میرے پیش نظر البتہ چھوٹی چھوٹی سی باتیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں پاکستان پانچ اکائیوں کے اتحاد کا نام تھا‘ وہ غلطی کہتے ہیں بلکہ پوری فکر انسانی کو ایک مغالطے میں ضبط کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ بات درست ہوتی اگر بنگال اورپنجاب کی تقسیم نہ ہوتی۔ یہ تقسیم چاہے تاریخ کی کتنی بڑی ناانصافی کیوں نہ ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ اس نے یہ ثابت کردیاکہ پاکستان کا قیام چند اکائیوں کا اتحاد نہ تھا ‘ وہ پانچ تھے ‘ اب چار رہ گئے ہیں۔ ایسا کہنے والوں کی نیت پر مجھے شک ہے کہ یہ اتحاد کی بات کی آڑ میں انتشار اور افتراق کا ایجنڈا پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ بحثیں کئی عنوان سے ہوئی ہیں۔ جب پاکستان ٹوٹا اور بھٹو صاحب نے باقی ماندہ پاکستان میں کاٹھی گاڑھ لی تو ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر ایک بحث بہت زوروشور سے شروع کردی گئی۔ اس بحث کی باگیں فیض صاحب نے تھام رکھی تھیں۔ یہ بظاہر سیاسی بحث تھی نہ نظریاتی بلکہ ایک تہذیبی سوال تھا۔ فیض صاحب اپنا رنگ دکھاتے رہے حتیٰ کہ آخری مرحلے پر اس بحث میں جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پروفیسرکرار حسین اور ڈاکٹر اجمل کو شامل کرلیا گیا۔تب یہ راز کھلا کہ تہذیبی قوت کیا ہوتی ہے۔ ان دنوں ہمارے ہاں قومیتوں کے سوال کو بہت اچھالا جاتا تھا۔ سوشلزم کی روسی فقہ جو یہاں رائج تھی ‘ میں نے عرض کیا یہ اتفاق و اتحاد کا نام لے کر انتشار وافتراق کا ایجنڈا تھا۔ بڑے مزے مزے کی بحثیں ہوتی تھیں۔ کراچی کے حلقہ ارباب ذوق میں ایک ایسی بحث ہم نے بھی شروع کی۔ حلقے میں چھیڑچھاڑ چلتی رہتی تھی۔ میں نے بھی ایک مضمون بعنوان کلچر پر تین حرف پڑھ ڈالا۔ بحث میں کئی سوال آئے۔ ہمارے بائیں بازو کے دوست کہتے ہم چار بھائی ہیں۔ کیسی اتحاد و یگانگت کی بات ہے نا۔ میںسوال اٹھاتا کہ بجا ہے‘ آخر ان بھائیوں کا کوئی باپ بھی ہے یا نہیں۔ پھرپوچھتا‘ آپ کہتے ہیں ان سب کے تو لباس تک مختلف ہیں‘ آپ ذرا ان چاروں صوبوں میں رائج کوئی ایسا لباس بتا دیجئے جو سترپوشی کے اسلامی اصولوں کے منافی ہو اور نماز پڑھنے میں حارج ہوتا ہو۔ یہ بات ہمارے دوستوں کو اچھی نہیں لگتی تھی۔ عرض کیا تھا یہ اتحاد کا نام لے کر انتشار کا ایجنڈا تھا۔ یہ بتانا کہ کچھ فرق نہیں ان چاروں میں‘ ہمارے قومیتوں والے دوستوں کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا ‘ کیونکہ ان کی نیت اور تھی۔ یہ قومتیں دراصل صوبائیت ہی تھی۔ ان دنوں یہ شوشا بھی چھوڑا گیا کہ پاکستان میں صوبوں کو 40 کی قرارداد کے مطابق اختیارات دیئے جائیں۔ یعنی ایک طرح کی صوبائی خودمختاری کا نعرہ تھا۔ بھٹو صاحب کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو تو اس نعرے کو لے کر کنفیڈریشن کا نعرہ بھی لگاتے تھے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ صوبائی خودمختاری اچھی بات ہے یا بری مگر کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ ایسا کہنے والے اس کی آڑ میں کوئی اور کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے چینی مارکس ازم والے ایک الگ راگ الاپتے تھے۔ حلقہ ارباب ذوق میں بائیں بازو کے ممتاز دانشورعزیزالحق نے کہا کہ ون یونٹ کے حامی سرمایہ دار ہیں کیونکہ انہیں پورے ملک کو اپنی منڈ ی بنانا ہوتا ہے جبکہ اس کے مخالف فیوڈل ہیں جو اپنی زمین پر کسی دوسرے کو آنے نہیں دینا چاہتے۔ چلو دونوں کی چھوٹی ہوئی۔ یہ وہ بحثیں ہیںجن کے درمیان ہم چومکھی لڑائی لڑ رہے تھے۔ یہاں مجھے ایک اور بحث یاد آئی۔ چند ماہ پہلے لاہور کی مشہور لبرل درسگاہ لمز (Lums) میں ایک مباحثہ تھا۔ وہاں میں نے روسی قومیت پرستوں کے حوالے سے کوئی بات کی تو ایک صاحب مبارک علی جنہیں ایک طبقہ تاریخ دان سمجھتا ہے ‘ بول اٹھے کہ اس میں روسی مارکس فکر کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو ہماری ریاست نے غلط نصاب پڑھا کر لوگوں کو اپنے مسائل سے بیگانہ کردیا ہے۔ پھر اس قومیت پرستی کی بات کی جو مارکسی بھی نہیں‘ سراسر شائونسٹ قوم پرستی ہے۔ اب کون انہیں یہ سمجھائے کہ قیام پاکستان سے پہلے کے ان شاونائی قوم پرستوں نے کیا ریاست پاکستان کا نصاب پڑھ رکھا تھا۔ ایک بار ایک چینل نے ایک مذاکرہ کروایا۔ ایک طرف مجیب شامی‘ اوریا اور میں تھے ۔ دوسری طرف ایک سے ایک بڑا انقلابی۔ ادھر سے کسی نے اسی قسم کا اعتراض کیا کہ ہمیں نصاب ہی غلط پڑھایا جاتا ہے۔ تاریخ کی غلط تعبیر پیش کی جاتی ہے۔ میں نے فوراً عرض کیا آپ تاریخ میں کیا پڑھانا چاہتے ہیں۔ اورنگزیب ‘ عالمگیر‘ محمود غزنوی اور صلاح الدین ایوبی کو برابھلا کہنے کے علاوہ کوئی اور بھی آپ کا مطالبہ ہے تو بتا دیجئے۔ یہ البتہ نہیں بتایا گیا کہ ان لوگوں کی ان تاریخ ساز شخصیتوں سے اصل دشمنی ہے کیا۔ یہ جو اٹھارہویں ترمیم کی بحث ہے یہ بھی بظاہر اسی صوبائی خودمختاری کے بطن سے پھوٹی ہے۔ میں نے عرض کیا جو لوگ اس وقت اس کی مخالفت کررہے ہیں ان کے مقاصد اور ہونگے‘ کم از کم میں نے جب اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا تھا تو ذہن میں کچھ اور تھا۔ ایک تو یہی جواب چیف جسٹس نے دیا ہے کہ آپ نے گویاسارے آئین کا ڈھانچہ بدل ڈالا اور اسمبلی میں اس پر بحث ہی نہیں کی۔ پارٹیوں کے نمائندوں نے اسمبلی سے باہر باہر ہی اتفاق رائے کرلیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ اسمبلی کی اکثریت کا فیصلہ نہ تھا‘ پارٹیوں کا مک مکا تھا۔ بڑی جماعتوں کے بھی دو دو چار نمائندے اور دو دو چار ارکان والی پارٹیوں کے بھی اتنے نمائندے۔ پھراس پر بحث کی اجازت ہی نہ دی گئی۔اسمبلی کو ربراسٹمپ بنا کر اسے پاس کروالیا گیا۔ سارا آئینی ڈھانچہ بدل ڈالا ۔پہلاجھگڑا غالباً اس وقت پیدا ہوا جب بعض صوبوں نے یہ بتایا کہ وہ اپنا الگ نصاب تعلیم بنائیں گے ۔ آپ پوچھیں گے اس میں حرج ہی کیا ہے۔ بیچارے عمران خان تو ملک میں رائج تین نظام ہائے تعلیم کو ایک کرنا چاہتے ہیں۔ آپ پہلے والے نظام کو بھی قومیتوں کے پس منظر میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ میری اس معاملے میں یہ پختہ رائے ہے کہ اس اٹھارہویں ترمیم کی آڑ میں ہم نے صوبوں کو ذراز یادہ ہی تقدس دے دیا ہے۔ اب صوبہ اہم ہے ‘ ملک نہیں۔ ایک لمحے کے لئے تسلیم کئے لیتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ پھر یہ کیا گیا ہے جب مشرف نے شہری حکومتوں کا نظام بنایا تو اس پر اعتراض اٹھا کہ صوبوں کو بائی پاس کرکے بلدیات کو اختیار دے دیئے گئے ہیں اور اسے سیدھا وفاق کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے جبکہ وفاق نہیں مرکز کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اعتراض درست تھا مگر اس ترمیم میں اس بات کا کوئی آئینی بندوبست نہیں کہ صوبے اپنے اختیارات اسی طرح چھوٹے یونٹوں یا بلدیات کے حوالے کرنے کے پابند ہوں جس طرح وفاق نے یہ اختیار ان کے سپرد کئے ہیں۔ اب میں ان جھگڑوں کی طرف نہیں آنا چاہتا جو ہر روز سر اٹھاتے ہیں۔ ان مسائل کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتا جو پیداہورہے ہیں البتہ اس بات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جس پر آج کل بعض لوگوں کو اعتراض ہے۔ پاکستان میں وفاق کی مالی پوزیشن ایسی ہے کہ اسے انتظامی معاملات کے علاوہ ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی کرنے کے علاوہ وہ کام کرنا ہیں جو ریاست کے وجود کے لئے ناگزیر ہیں۔ایک تو ان قرضوں کی ادائیگی جو اس ریاست کو قائم رکھنے کے لئے حکومتوں نے لے رکھے ہیں۔دوسرے دفاع اور سلامتی کے قومی ڈھانچے کی تشکیل۔گزشتہ دنوں مفتاح اسماعیل نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے چار ہزار ارب کا ٹیکس اکٹھا کیا ۔ان میں تئیس بڑے صوبوں کو دیدئے،باقی رہ گئے سترہ ہزار ارب ، ان میں پندرہ ہزار دفاع کو دئیے۔ رہ گئی ادو ہزار ارب کی رقم اس سے قرض بھی ادا کرنے ہیں ، ملک چلانا ہے اور ترقیاتی کام بھی کرنا ہیں۔بتائو کہاں سے کروں، صوبے ان میں سے کسی مد میں دینے کو تیار نہ پابند ۔انہوں نے خزانے کا بڑا حصہ اپنے قابو میں کر لیا ہے۔ مگر ریاست کی بڑی بڑی ذمہ داریاں وفاق کے پاس ہیں۔ یہ کیسے پوری ہوں۔ اس کے بہت سے ضمنی اور ذیلی سوالات ہیں۔بعض ذرا نازک بھی ہیں مگراس وقت مرا دل تو یہ بھی چاہتا ہے کہ جنوبی پنجاب یا صوبوں کی مزید تقسیم پر بھی بات کروں ،مگر بحث بہت پھیل جائے گی۔ سندھ میں اس وقت انتظامی طور پر کراچی اور اندرون سندھ دو الگ اکائیاں ہیں، عملی طور پر آپ انہیں الگ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہندوستان نے انتظامی طور پر نئے صوبے بنائے، ہم مگر کیسے بنائیں ، کیونکہ ہم نے تو یہ راگ الاپ رکھا ہے کہ پاکستان پانچ اور اب چار اکائیوں کے ساتھ (اب چار) اکائیوں کا ملاپ ہے تو ہم کون ہوتے ہیں ان اکائیوں کے حصے بخرے کرنے والے۔ اب اگر کھل کر بات کرنا ہی ہے تو پھر ان سب مسائل پر بھی کر لیجئے بعض لوگ جو اس وقت اٹھارویں ترمیم کے چیمپیئن بنے ہوئے ہیں ان کی فکر کا تیا پانچہ بھی ہونا چاہیے۔ اس ترمیم کے پورے پراسس کے بخیئے بھی ادڑھنا چاہئیں۔ ساری خرابی اس میں مضمر تھی۔اس وقت جو لوگ اس کا کریڈٹ لیتے ہیں ان کی شخصیت اور کردار کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے۔کوئی چیز مقدس نہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ قومیںکیسے بنتی ہیںاور کیسے بکھرتی ہیں۔ ہندوستان ایک ملک تھا۔۔اس میں سے ایک قوم الگ تراشی گئی۔ان دنوں اس کے لئے اسلامیان ہند کی اصطلاح استعمال کی گئی۔یہ اتنا بڑا مشترکہ سرمایہ تھا کہ جب اسلامیان ہند نے مل کر ترکی میں خلافت کے حق میں تحریک چلائی تو اگرچہ یہ تحریک پورے برصغیر میں تھی تاہم ترک قوم اس کا کریڈٹ آج بھی پاکستان کو دیتی ہے۔ اسلامیان ہند جس جذبے کی تجسیم ہے کوئی چاہے کتنا بھی فلسفہ جھاڑتا رہے ،ہوسکتا ہے آپ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے بارے میں یہ پوچھنا چاہیں یا بنگلہ دیش کا سوال اٹھانا چاہیں ۔یہ سوال ہمارے ہاں بہتسے اہل فکر ونظر نے اٹھایا ہے۔ہمارے ستر برس ہی نہیں ستر صدیاں بھی اس کے جواب میں گزر جائیں تو کم ہو گا۔ہمیں اسکا جواب معلوم ہے ، ہمارے دشمن کو بھی معلوم ہے مگر وہ ہر دور میں نئے روپ میں آتا رہے گا اور ہم اس سے نپٹتے رہیں گے۔اسے اٹھارویں ترمیم کی تنگنائے میں بند نہیں کیا جا سکتا۔یہ ایک الگ بحر بیکراں ہے ۔اور ہمیں اس کا شناور بننا ہے۔