اس ماہ کے اگلے ہفتے ہندوستان کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔ یوں تو انتخاب کبھی ہوں اور کسی بھی سطح کے ہوں، ہمیشہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایک جمہوری نظام کا دار و مدار انتخاب پر ہی ہوتا ہے۔ لیکن ابھی راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم اسمبلی کے جو انتخابات نومبر اور دسمبر ماہ کے درمیان ہونے جا رہے ہیں وہ انتخابات ہندوستانی جمہوری نظام کی بقا کے لیے انتہائی اہم انتخابات ہیں۔ کیونکہ یہ انتخابات طے کر دیں گے کہ چند ماہ بعد یعنی مئی 2019 ء میں لوک سبھا کے ہونے والے انتخابات کے کیا نتائج ہوں گے۔ اگر اپوزیشن یعنی کانگریس راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں انتخابات جیت گئی تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ لوک سبھا انتخابات کی آدھی لڑائی بھی کانگریس اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر جیت گئی۔ جی ہاں، پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات بلاشبہ سیمی فائنل انتخابات ہیں۔ اگر یہ مرحلہ بخوبی طے ہو گیا تو بس سمجھیے کہ لوک سبھا کا مرحلہ بھی بخوبی طے ہو جائے گا۔ اس کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ ان انتخابات میں اپوزیشن کی کامیابی سے جو بی جے پی مخالف ماحول بنے گا وہ لوک سبھا میں نریندر مودی کے لیے آخری کیل ثابت ہوگا۔ ویسے بھی پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات سے قبل ہی ملک کا موڈ بدل چکا ہے۔ بی جے پی مخالف ماحول تیزی سے بننے لگا ہے۔ خود سنگھ پریوار گھبرایا گھبرایا سا ہے۔ کیونکہ اب نریندر مودی وہ نریندر مودی نہیں بچے جو 2014 ء میں ہوتے تھے۔ 2014 ء کے مودی پر تو ہندوستان عاشق ہو گیا تھا۔ جھوٹ سچ جو کچھ بھی مودی ہندوستانیوں سے اس وقت کہتے تھے ہندوستانی اس پر آنکھ بند کر یقین کرتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ 2014 ء کے لوک سبھا انتخابی تشہیر کے وقت ہندوستانیوں کو یہ یقین تھا کہ مودی سیاستدان نہیں بلکہ ایک جادوگر ہے جو ان کی زندگی بدل دے گا۔ چار برسوں میں مودی نے ہندوستانیوں کی زندگی تو بدلی لیکن وہ اچھے کے لیے نہیں برے کے لیے بدلی۔ پچھلے پندرہ بیس برسوں میں ہندوستانی معیشت کی وہ حالت کبھی نہیں ہوئی جو اب ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیے کہ حکومت ہند ریزرو بینک آف انڈیا سے یہ کہہ رہا ہے کہ اس کے پاس بینکوں کا جو ریزرو روپیہ جمع ہے وہ بینک حکومت کو دے دے۔ اس کے معنی کیا ہوئے! سیدھی سی بات ہے کہ مودی حکومت نے ملک کا خزانہ تقریباً خالی کر دیا۔ اب اس کو خرچے کے لیے ریزرو بینک آف انڈیا سے روپے درکار ہیں۔ جب حکومت کی معاشی حالت اس قدر بری ہوگی تو ملک کی معیشت کا کیا حال ہوگا، اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ اس معاشی بحران کا ذمہ دار کون ہے! خود وزیر اعظم نریندر مودی اس بدحالی کے ذمہ دار ہیں۔ ابھی 8 نومبر کو ملک نے نوٹ بندی کی دوسری ’’برسی‘ ‘منائی۔ میں نے جان بوجھ کر لفظ برسی کا استعمال اس لیے کیا کیونکہ اسی تاریخ کو دو برس قبل نریندر مودی نے پانچ سو اور ایک ہزار روپیوں کا اپنے ہاتھوں گلا گھونٹ کر ملک میں نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا۔ بس اس ایک فیصلے نے کم و بیش ملک کی معیشت کا بھی گلا گھونٹ دیا تھا۔ دھندے چوپٹ ہو گئے اور ایسے چوپٹ ہوئے کہ آج بھی رو رہے ہیں۔ نئے روزگار پیدا ہونے تو درکنار، لاکھوں لوگ جو روزگار سے جڑے تھے وہ بھی بے روزگار ہو گئے اور آج بھی روزی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکر کھا رہے ہیں۔ ایک طرف تو عام ہندوستانی کی کمر ٹوٹ گئی دوسری طرف وجے مالیا، میہل چوکسی اور نیرو مودی جیسے سرمایہ کار اور بی جے پی کے دوست بینکوں کا ہزاروں کروڑ روپیہ لے کر ملک سے بھاگ گئے۔ اب یہ عالم ہے کہ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے اور مودی حکومت اس کو بچانے کے لیے ریزرو بینک سے بھیک مانگ رہی ہے۔ یہ تو رہا معیشت کا حال۔ اس سے بھی بدتر سیاسی حالات ہیں۔ سنگھ اور ہندو ہردے سمراٹ نریندر مودی نے مل کر ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا عہد کر لیا ہے۔ گو آئینی طور پر ہندوستان ابھی بھی ایک سیکولر ملک ہے۔ لیکن عملی طور پر بی جے پی نے ملک کا پوری طرح بھگواکرن کر دیا ہے۔ مودی حکومت کے پچھلے چار برسوں میں ہندوستانی اقلیتیں اور بالخصوص مسلم اقلیت ہر معنی میں دوسرے درجے کی شہری ہو چکی ہے۔ مسجد میں اذان سے ’ساؤنڈ پولیوشن‘ ہوتا ہے، تاج محل میں پانچ وقت کی نماز نہیں ہو سکتی، دہلی سے ملے ہوئے گڑگاؤں میں کھلے میدان میں جمعہ کی نماز پر پابندی ہے، شرعی معاملات میں بھی حکومت کی دراندازی ہے، اور تو اور آج اس ملک کا مسلمان نہ تو اپنے گھر کے اندر محفوظ ہے اور نہ ہی سڑکوں پر اس کی جان کی امان ہے۔ بھلا مودی حکومت سے قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ اخلاق اپنے گھر کے اندر گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں مارا جائے گا۔ جس مودی کے دور میں گجرات میں مسلم نسل کشی ہو سکتی ہے، اس مودی کے راج میں بھلا ہندوستانی مسلمان کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ ابھی مسلمان اور دوسری اقلیتوں کے پاس حق رائے شماری یعنی ووٹنگ کا حق بچا ہے۔ اگر 2019 ء لوک سبھا انتخابات میں بھی مودی کی قیادت میں بی جے پی برسراقتدار آ گئی تو یہ ملک باقاعدہ ہندو راشٹر ہو جائے گا اور اقلیتوں سے حق رائے شماری بھی چھین لیا جائے گا۔چھتیس گڑھ، راجستھان، مدھیہ پردیش، تلنگانہ اور میزورم میں جو اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں، وہ لوک سبھا انتخابات سے قبل آخری موقع ہے کہ جن کے ذریعہ مودی کو 2019 ء میں ہندوستان کا دوسری بار وزیر اعظم بنانے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس لیے ان ریاستی انتخابات میں تمام فرقہ پرست مخالف عوام کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ان انتخابات میں فرقہ پرست طاقتوں کو شد و مد کے ساتھ ہرائیں۔ کیونکہ اگر ابھی کوئی لغزش ہوگی تو پھر 2019 ء کے لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی کو شکست دینا بہت مشکل ہو جائے گا۔ (بشکریہ:سیاست ،دہلی)