وزیراعظم عمران خان نے ٹی وی چینل وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حق میں اپوزیشن کی طرف سے ووٹ دینے بارے ریمارکس پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ لیکن اس اہم مسئلے پر صرف ناراضگی کافی نہیں ، بلکہ واقعے کے ذمہ داران کے خلاف ایکشن ہونا چاہئے ۔ وزیراعظم کو تمام معاملات سے باخبر رہنا چاہئے ، اس واقعے کے علاوہ ایک اور بھی غیر معمولی واقعہ اسمبلی میں رونما ہوا کہ ن لیگ کے رکن اسمبلی رانا ثنا اللہ اور وفاقی وزیر شہریار آفریدی جس طرح اپنے اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے قرآن مجید اسمبلی میں لے آئے ، اس سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ۔ اس پر بھی وزیراعطم کا ایکشن بنتا ہے ۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے اس مسئلے پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں سپیکر ہوتا تو رانا ثناء اور شہریار آفریدی دونوں کی رکنیت کو معطل کر دیتا ۔ فواد چودھری سپیکر پر تنقید تو کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا سپیکر کا تعلق کسی جماعت سے ہے ؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسمبلی کو تماشہ نہ بنایا جائے بلکہ اسمبلی سے آئین سازی کا کام لیا جائے۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے وفاقی وزیر فیصل واوڈاکے طرز عمل پر عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بوٹ کو سیاست زدہ نہیں کرنا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ جوبوٹ ٹیبل پر رکھا ہوا تھا وہ بوٹ سیاچن ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی پر ہے ، یہ پی ٹی آئی کی پالیسی کے خلاف ہے ۔ ن لیگ اداروں کو سیاست زدہ کرتی تھی ، افواج پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کو سیاست میں گھسیٹتی تھی ۔محترمہ نے کہا کہ یہ قومی ادارے ہیں ، کسی ایک جماعت کے ادارے نہیں ۔ پاک فوج کو سیاست زدہ کرنے کا عمل غلط ہے ۔ سوال ہے کہ فیصل واوڈا کس کی کابینہ کے وزیر ہیں ؟ ان کا تعلق ن لیگ سے ہے یا تحریک انصاف سے ؟ سوال یہ بھی ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہی ہیں کس سے کہہ رہی ہیں ؟ نصیحت بھرے لہجے میں بات کرنے کی بجائے ایکشن کے انداز میں بات کرنی چاہئے اور وزیراعظم عمران خان سے کہنا چاہئے کہ غیر ذمہ دار وزیر کو کابینہ سے ہٹا یا جائے ۔ محترمہ کو ادھوری بات کرنے کی بجائے پوری بات کرنی چاہئے کہ جس طرح ایک وفاقی وزیر نے نہایت ہی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست دان ہوکر سیاستدانوں کی تضحیک کی ، وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا شرمناک واقعہ ہے ۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ قومی ادارے کو کو سیاست زدہ نہ کیا جائے مگر سوال یہ ہے کہ کیا سیاست اسی کا نام ہے ؟ یہ الگ بات کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک تمام سیاستدان اقتدار کے مراکز کا طواف اور مقتدر لوگوں کی قدم بوسی کے بعد ہی اقتدار میں آتے رہے ہیں مگر یہ کیابات ہوئی کہ محترمہ ایک ادارے کی تو بات کر رہی ہیں کہ اسے بدنام نہ کیا جائے مگر جس سیاسی میدان میں وہ موجود ہیں اسے بدنام کرنے کا دفاع کر رہی ہیں ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ سیاست کو گند سے تشبیہ دے رہی ہیں ۔ محترمہ وزیراعظم کی مشیر ہیں ، وزرات اطلاعات کا منصب ان کے پاس ہے ، وہ میڈیا کو کنٹرول کرتی ہیں ، اس بات کی تحقیق ہونی چاہئے کہ بوٹ ٹی وی اسٹوڈیو میں کیسے پہنچا اور جس طرح مزے لے لے کر سیاست دانوں کو بدنام کیا گیا اور قومی ادارے کو ملوث کرنے کی کوشش کی گئی تو کیا اس کی ذمہ داری متعلقہ ٹی وی چینل یا اینکر پر عائد نہیں ہوتی ؟ اگر ہوتی ہے تو محترمہ نے اس بارے کیا کاروائی کی ؟دوسری جانب ن لیگ کی رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ زاہد بخاری نے فیصل واوڈا کے استعفیٰ کیلئے قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کرا دی ہے ۔ بخاری صاحبہ کو ایک قرارداد ان کو رانا ثناء اللہ اور شہریار آفریدی کے بارے میں بھی جمع کرانی چاہئے کہ بوٹ والا واقعہ بھی قابل مذمت ہے مگر اپنے اپنے جھوٹ کو سچ بنانے کے نام پر قرآن کو لے آنا بھی درست عمل نہیں ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی نے اپنی حکومت پر پیسے لیکر نوکریاں دینے کا الزام لگا دیا ۔ راجن پور سے ریاض مزاری نے الزام لگایا کہ ریلوے میں راجن پور سے نوکریاں ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ میں بیچی گئیں ، اس حوالے سے فہرست پیش کر سکتا ہوں ۔ سردار ریاض خان مزاری نے اسمبلی میں بات کرکے عوامی نمائندگی کا حق ادا کیا ۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ اسمبلی میں ان کی بات پہلی مرتبہ سننے کو ملی ورنہ سرائیکی وسیب کے سیاستدان ماسوا دو چار کبھی سننے کو نہیں ملے ۔ سردار ریاض خان مزاری کو اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے ریلوے میں سرائیکی وسیب کے ساتھ ہونے والی حق تلفیوں پر بھی بات کرنی چاہئے اور ریلوے میں وسیب کی آبادی کے مطابق ملازمتوں کا کوٹہ طلب کرنا چاہئے ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ سردار ریاض خان مزاری کو اسمبلی فورم پر بتانا چاہئے کہ میرے علاوہ میرے بزرگ میر بلخ شیر مزاری قریباً نصف صدی سے صوبے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں مگر صوبے کی نوبت ابھی تک نہیں آئی ۔ اگر یہ اسمبلی بھی صوبہ نہیں بناتی تو پھر کب صوبہ بنے گا؟ حکومت سے اس کے اتحادی ناراض ہیں ۔ کم وزارتیں اور اختیارات نہ ملنے پر ق لیگ نے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے جبکہ ایم کیو ایم نے تو حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ صبح شام گورنر اور حکومتی نمائندے ایم کیو ایم کو منانے میں مصروف ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان سے جو وعدے کئے وہ پورے نہیں ہوئے ۔ سوال یہ ہے کہ سرائیکی وسیب سے جن لوگوں نے الیکشن لڑا ، ان سے صرف زبانی کلامی نہیں تحریری وعدہ ہوا کہ ہم صوبہ بنائیں گے ، کیا وسیب سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار سمیت وہ تمام اراکین صوبائی و قومی اسمبلی جو مرکز اور صوبوں کی اسمبلیوں میں پہنچے ، کیا ایم کیو ایم کی طرح بات نہیں کرسکتے کہ ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا گیا وہ پورا نہیں ہوا ، ان کو برملا کہنا چاہئے کہ ہم اپنے اپنے علاقوں میں اپنے ووٹروں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ، کیا وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یا تو وعدہ پورا کیا جائے یا پھر ہم سے استعفیٰ لے لیا جائے ؟ وسیب سے صوبے کے نام پر ووٹ لیکر مرکز اور صوبے میں اقتدار کے مزے لینے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ آج وسیب کا نوجوان جس قدر پریشان ہے اور صوبہ نہ ہونے کی وجہ سے وسیب کا ہر ایک انسان جس پریشانی میں مبتلا ہے ،اس کا مداوا اگر وہ نہیں تو کون کرے گا؟