ملک میں کچھ دنوں سے اسکوک بانڈ کے اجرا کے حوالے سے علامتی طور پر اسلام آباد کے ایف نائن پارک کو گروی رکھوانے کی خبریں تھیں،خاص طور پر سوشل میڈیا میں اس کا بہت چرچا تھا،وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ کے اجلاس میں وزارت خزانہ کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا: عوام کے پارک کو علامتی طور پر بھی گروی نہ رکھا جائے، اس کے بعد فیصلہ ہوا کہ اسلام آباد کلب گروی رکھا جائے گا ،اسکوک بانڈ کے اجرا کیلئے حکومت کی پراپرٹیز کو گروی رکھوانا کوئی نئی بات نہیں، یہ معمول کی بات تھی ، پاکستان کے کلیدی منصوبے گروی رکھے ہوئے ہیں، پچھلی حکومت نے سب سے زیادہ اسکوک بانڈ جا ری کئے ،اسکے لئے لاہور ،اسلام آباد موٹر ویز،ریڈیو پاکستان کا سیکریٹریٹ کے ایک بلاک کو گروی رکھا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی اس عمل کے ذریعے قرضے حاصل کئے گئے،2017 میں ن لیگ کے وزیر قانون زاہد حامد نے اس کے متعلق واضح طور پر قوم کو بتایا بھی تھا۔ 2008 سے اب تک تین منتخب حکومتوں نے 30 سے زائد مرتبہ اسکوک بانڈ جاری کر کے تقریاً 1.7 کھرب کے قرضے حاصل کئے ،جو لوگ سوشل میڈیا پر ہنگامہ آرائی کر رہے ہیں ، ان کے پاس شاید یہ معلومات نہیں تھیں گزشتہ حکومتوں نے اسلام آباد پشاور، اسلام آباد لاہور، فیصل آباد موٹر ویز کے علاوہ جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ گارنٹی کے طور پر استعمال کئے۔ اسکوک بانڈز کے ذریعے مقامی بینکوں کے کنسورشیم سے قرضہ لیا جاتا ہے۔یہ مورگیج یا گروی نہیں ہوتا، اس کے لیے ہم گروی کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے۔اس پراپرٹی کی اونرشپ تبدیل نہیں ہو سکتی، اگر سی ڈی اے کی پراپرٹی ہے تو وہ سی ڈی اے کی ہی رہے گی اور سی ڈی اے اپنی پراپرٹی پر کچھ بھی کر سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر ایف نائن پارک کے عوض قرض لیا جائے گا تو پراپرٹی لاک ہو جائے گی بلکہ اصل مالک اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا رہے گا۔کنونشن سینٹر کے عوض اور کراچی ائیر پورٹ کے عوض بھی سکوک بانڈ جاری کیے گئے تھے۔ضیاء الحق کے دور میں زرعی زمین کے عوض قرض لیے جاتے تھے لیکن بعد میں سرکاری املاک کے عوض قرض لیے جانے لگے۔ صدر مشرف کے دور میں بھی سکوک بانڈز کے ذریعے بین الاقوامی مارکیٹ سے ڈالرز لیے گئے تھے۔ہر سال بجٹ سے پہلے حکومت کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ہر حکومت بجٹ کو فنڈ کرنے کے لیے سکوک بانڈ جاری کر کے قرض لیتی ہے۔ سکوک بانڈز پہ حکومت کی طرف سے شرح منافع اچھا ہوتاہے، جس کی وجہ سے اْن کی فروخت جلدی ہوتی ہے۔ماہر معیشت کا کہنا ہے کہ: سکوک بانڈ ایک اسلامی بانڈ ہے اس میں سود نہیں ہوتا بلکہ منافع ہوتا ہے۔اسکوک بانڈ وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک جاری کرتے ہیں۔ اسلامی بینک حکومت سے سکوک بانڈ خرید کے اس کے عوض حکومت کو رقم فراہم کر دیتے ہیں۔اسکوک بانڈ بینکوں کو بیچنے کے لیے صرف حکومت کی ضمانت نہیں چلتی بلکہ کاغذی طور پر کوئی پراپرٹی جس کی مالیت اتنی ہی ہو، اس کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ صرف سکوک کی شرط پوری کرنے کے لیے کیا جاتاہے۔کیونکہ سکوک کی شرط ہوتی ہے کہ ضمانت اس چیز کی ہو جس کے عوض منافع آ رہا ہو۔واضح رہے کہ بطور ضمانت رکھی جانے والی املاک کی مالیت لیے گئے قرض کے برابر یا اْس سے زیادہ ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی پچھلے سال مئی میں پاور ڈسٹری بیوشن کمپنی کے اثاثے کے عوض اسکوک جاری کر کے 200 ارب کا قرضہ حاصل کیا اور پچھلے سال مارچ میں جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے عوض ساڑھے سات سو ارب کا قرضہ حاصل کیا ۔اسلام آباد پارک کے حوالے سے حکومت میڈیا پر اپنا موقف پیش نہیں کرسکی ،یہ حکومتی ارکان کی کمزوری تھی حالانکہ ایف نائن پارک کے عوض قرضہ لینا غلط نہیں تھا لیکن حکومت لوگوں کو سمجھا نہیں سکی اور حکومت کی طرف سے مسلسل خاموشی رہی اور یہ ایشو میڈیا میں خوب اچھا لا گیا اور اسے ایسے پیش کیا گیا،جیسے حکومت کوئی گناہ کرنے جا رہی ہے، سوشل میڈیا پر اسے خوب اچھا لا گیا، جس سے لگتا ہے وزیر اعظم پریشر میں آ گئے اور اس پارک کے عوض قرضہ لینے سے منع کردیا حالانکہ یہ ایک نارمل فنانشل ٹرانزیکشن ہے جس طریقے سے بانڈ دیے جاتے ہیں، اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ تحریک انصاف نے جب حکومت سنبھالی تو لگ یہ رہا تھا کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ، اس کا ذکر عمران خان بھی بار ہا کر چکے ہیں کہ حکومت سنبھالی تو دیکھا پیسے ہی نہیں ملک چلانا کیسے ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کا سوچا لیکن پہلے کوشش کی گئی کہ دوست ممالک سے قرض لیکر ملک چلایا جائے، ڈالر ایک دم اوپر گیا ،تجارتی خسارہ بہت زیادہ تھا تو حکمت نے سعودی عرب ، یو اے ای اور چین سے قرض لیا جس کی وجہ سے جو پاکستان نے فوری پے منٹ کرنا تھی وہ کی گئی، حکومت پر الزم لگتا ہے کہ س حکومت نے سب سے زیادہ قرضہ لیا یعنی اس حکومت نے اب تک 11 کھرب کے قرضے لے لئے، حکومت کا موقف ہے کہ اس میں 6 کھرب روپے قرضوں اور سود کی واپسی میں لگے، 3 کھرب روپے ڈالر اوپر جانے سے بڑھ گئے ،پھر 1.9 کھرب روپے کوویڈ کی وجہ سے غریب لوگوں کو دیے گئے، 500 ارب روپئے حکومت اخراجات میں استعمال ہوئے ،یہ ان قرضوں کی تفصیل جسے اپوزیشن منی پرا پیگنڈہ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ماضی کی ناکام معاشی پالیسیوں کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے بھی مزید قرضے لینے پڑتے ہیں،پاکستان کا معاشی ماضی افسوسناک ہی رہا ہے۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضے تشویش ناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ ریاستی ادارے اربوں روپے کے خسارے پر چل رہے ہیں۔امیر اور غریب کے درمیان فرق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔۔ کئی دہائیوں سے ٹیکس نیٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا سکا۔ جس کی وجہ سے بجٹ کا خسارہ ہر سال بڑھتا ہی رہا ہے۔ مستحکم معیشت کی دو بنیادیں صنعت اور زراعت کی پیداوار زوال پذیر رہی ہے۔ قومی خزانے کو جس بے دردی اور سنگدلی کے ساتھ لوٹا گیا اس کی داستان نیب کے ریکارڈ ،عدالتوں کی فائلوں اور میڈیا کے اخبارات اور ویڈیوز میں موجود ہیں۔حکومت کو اب یہ کرنا چاہئے کہ نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جائے ،گورننس کو بہتر کیا جائے کرپشن پر قابو پایا جائے اور گروتھ میں مڈل کلاس کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان گاہے بگاہے معاشی صورتحال کے بارے میں عوام کو اْمید دلاتے رہتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ پاکستان کی معیشت کے بارے میں قوم سے تفصیلی خطاب کریں تاکہ عوام کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں وہ دور ہو سکیں۔ ٭٭٭٭