کراچی آرٹس کونسل 2008ء سے پہلے ایک ویران سرائے یا کسی بھوت بنگلے سے کسی طرح کم نہیںتھی ، یہ مبالغہ آرائی نہیں حقیقت ہے کہ ان دنوں آرٹس کونسل کی اجاڑ عمارت کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی خوف آتا تھا ۔ اس کی چاردیواری کے اندر پھیلی وحشتیںکراچی کے ادب اور ثقافت کے نام پر دھبہ تھیں۔یہاں رات کے اندھیرے میں ہی نہیں دن کے اجالے میں بھی منشیات فروشوں اور منشیات استعمال کرنے والوں کی سرگرمیاں عروج پر رہتی تھیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ادب اور ثقافت کے نام پر بنائے گئے اس ادارے اور اس کی عمارت کو دل کے مریضوں نے ’’اسکینڈل پوائنٹ‘‘ بنا کر رکھ دیا تھا، جیسے آج کل بانی پاکستان محمد علی جناح کا مزار بھی ’’اسکینڈل پوائنٹ ‘‘ بن کر رہ گیا ہے،مزارقائد کی تزئین وآرائش کے بعد اس کے لئے داخلہ فیس مقرر کر دی گئی ہے۔ جس یادگار میں داخلے پر ٹکٹ لگا دیا جائے تو وہ یادگار نہیں رہتی تفریح گاہ بن جاتی ہے ۔ہمارے قائدمحمد علی جناح کامزار بھی تفریح گاہ بنا دیا گیاہے جو دھیرے دھیرے ’’اسکینڈل پوائنٹ ‘‘ بنتا جا رہا ہے ۔ یہاں پریمی جوڑوں کو مزار کی انتظامیہ نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ چند روپے دے کر مزار قائد کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے رہیں ،انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوگا۔تاریخ سے آشنائی رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ انیسویںصدی کے اواخر اور کراچی میں انگریزوں کے ابتدائی زمانے میں کراچی کا کلب روڈ میٹروپول سے آگے سلطان آباد کے پل تک، جہاں اس زمانے میں چائنا کریک موجود تھا ’’ اسکینڈل پوائنٹ‘‘ کہلاتا تھا۔یہاں شام ڈھلتے ہی انگریزپریمی جوڑوں کا جمگھٹا لگ جاتا تھا جو سرگوشیوں میں خوش گپیاں کرتے اور یہاں شام کے سائے ڈھلنے کے بعدبے حیائی کے مناظر عام تھے۔ جب قصے کہانیاں طول پکڑنے لگیں ،پہلے یہ قصے شہر کی چھاونیوں میں پھیلے ،وہاں سے سفر کرتے ہوئے کیمپ بازاروں اور گوری مارکیٹوں تک جا پہنچے اور اس کی بھنک انگریز چیف کمشنر سندھ کو بھی پڑ گئی۔ معاملات رنگین اورسنگین ہونے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ’’اسکینڈل پوائنٹ‘‘ کے قصے مرچ مصالحوں کے ساتھ وائسرائے کے دربار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہے تو وائسرائے کے حکم پرگوری انتظامیہ نے اسی ’’اسکینڈل پوائنٹ‘‘کلب روڈ پرہی کراچی جیمخانہ کلب قائم کر کے پریمی جوڑوں کو تخلیہ گاہ مہیا کردی ۔ 1890ء میں کراچی جیمخانہ کلب کی تعمیر کے بعد دیسی افراد ان نظاروں سے محروم ہوکررہ گئے جنہیں۔ تقریباً سو سال بعدکراچی آرٹس کونسل نے چائنا کریک کے اسکینڈل کی یاد تازہ کردی۔ احمد شاہ کے کراچی آرٹس کونسل میں ورود سے پہلے آرٹس کونسل ایک ثقافت گاہ سے زیادہ ’’اسکینڈل پوائنٹ‘‘تھا جہاں جرائم پیشہ عناصر ہر وقت ڈگمگاتے رہتے۔2008ء میں کراچی کو ٹوٹ کر پیار کرنے والے ایک نوجوان کو کراچی آرٹس کونسل کی گورننگ باڈی میں منتخب ہونے کا موقع ہاتھ آگیا تو اس نے ملک کے اس سب سے بڑے ثقافتی ادارے کی تاریخ ہی بدل ڈالی اور صرف بارہ برسوں میں اپنی متحرک اور فعال ٹیم کی معاونت سے اسے ادب وثقافت کا ایک عظیم مرکزبنا ڈالا۔ احمد شاہ بظاہر ایک کھلنڈرا اور بے نیاز سا نوجوان تھا جو کبھی تو کسی مشاعرے کی نظامت کرتا دکھائی دیتا اور کبھی مشاعرے کے سامعین میں نذیر لغاری، ڈاکٹر ایوب شیخ، کمانڈر ایوب ،نثار کھوڑو، فاضل جمیلی اور دوسرے دوستوں کی بھیڑ میں بیٹھ کر پسندیدہ شاعروں کوداد دیتا اور ان کے حریف شاعروں کی بھد اڑاتا دکھائی دیتا۔ کسی بھی مشاعرے میں احمد شاہ اینڈ کمپنی کی موجودگی مشاعروں کی کامیابی کی سند سمجھی جاتی ۔ 2008ء میں کراچی آرٹس کونسل میں عہدیداروں کی نامزدگیوں کی روایت ٹوٹی اور باقاعدہ انتخابات ہوئے اور احمد شاہ گورننگ باڈی کا رکن منتخب ہو کر ایک مختلف احمد شاہ کے روپ میں سامنے آیا ، پھر اس نے کبھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا ،آگے ہی آگے بڑھتا رہا اور آج وہ کراچی آرٹس کونسل کا منتخب صدر ہے جس کے کریڈٹ پر یوں تو ہزاروں مشاعروں، کتابوں کی رونمائیوں، شبینہ محافل ، موسیقی کے پروگراموں، قوالی پروگراموں کی کامیابیوں کا سایہ ہے لیکن اگر صرف’’ عالمی اردوکانفرنس‘‘ کا تذکرہ کریں تو احمد شاہ کے کراچی آرٹس کونسل میں متحرک ہونے کے بعد پچھلے سال دسمبر میں بارہویں عالمی اردو کانفرنس منعقد کی گئی جو ایک عالمگیریکارڈبن چکا ہے ۔ اتنے سارے ادبی اور ثقافتی کام کے باوجود احمد شاہ تنازعات کی زد میں رہتا ہے، اس کے ناقدین اور مخالفین اس پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ جو کہتا ہے لاکھ مخالفت کے باوجودوہ سب کر کے دکھا دیتا ہے،اس لئے وہ فن وثقافت سے محبت کرنے والوں کو اپنی تمام تر خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ قبول ہے۔ حال ہی میں احمد شاہ نے امینہ سید کی معاونت سے ہر سال ادبی میلہ منعقد کرنے کی داغ بیل ڈالی ہے۔ جب وہ آکسفورد یونیورسٹی پریس میں تھیں تو ساحل پر ایک ہوٹل میں ہرسال ڈاکٹر آصف فرخی کی معاونت سے’’ کراچی لٹریچر فیسٹول‘‘ ایک یادگار ایونٹ تھا جو کم وبیش آٹھ نو برس تک ان کی رہنمائی میں بڑی شان وشوکت سے منعقد ہوتا رہا۔آکسفورد یونیورسٹی پریس سے علیحدگی کے بعد اس بار انہوں نے اپنا یہ ادبی میلہ ڈاکٹر آصف فرخی کی ہمراہی میں کراچی آرٹس کونسل میں سجا لیا ہے ۔ اس بار کراچی ادبی میلہ سجایا گیا تو اس کے مہمان خصوصی سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ تھے۔ ایک ادبی میلے میں قانون کی نامور شخصیت کو مدعو کرنے کا پس منظر سب جانتے ہیں کہ پاناما کیس سمیت کئی کیسوں میں جب جب بھی وہ کسی بینچ میں شامل تھے، وہ اپنے ریمارکس میں ادب کا تڑکا ضرور لگاتے تھے جس کی وجہ سے انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔ عدالت عظمیٰ سے جاتے جاتے ایک کیس کی سماعت کے دوران انہوںنے فہمیدہ ریاض کی ایک باغیانہ نظم سنا کر خوب داد سمیٹی تھی۔کراچی آرٹس کونسل کے ادبی میلہ میںجسٹس آصف سعید کھوسہ کا خطاب ان کے اندر کی اتھل پتھل کا آئینہ دار تھا۔انہوں نے کہا کہ عدالتوں پر سست روی کا الزام غلط ہے،عدلیہ نے گزشتہ بائیس سالوں میں57 ہزار کیس نمٹائے۔ وہ کہنے لگے کہ ملٹری کورٹ کیس ہو یا پاناما کیس، آسیہ بی بی کیس ہو یا سابق وزیر اعظم گیلانی کا کیس ان کیسز کا فیصلہ سناتے ہوئے ادبی شخصیات کے مشہور اقوال کا سہارا لیا جو ان کے اندر کے ادیب کی کروٹیں تھیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ادب رابطے کا وہ ذریعہ ہے جس کے الفاظ دل و دماغ میں گھر کر جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں ادب کی طرف دوبارہ پلٹنے کے لئے مضطرب ہوں ۔یہ ادبی میلہ تین روز تک جاری رہے گا ، ا س میں ملک بھر سے اہم ادبی اور ثقافتی شخصیات تشریف لائیں گی۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول کی طرح کراچی ادبی میلہ بھی امینہ سید کی ذہنی اپج کا نتیجہ ہے لیکن اسے کامیاب بنانے کے لئے ادب شناس ، سخنور اور دل نواز احمد شاہ کی معاونت قابل ستائش ہے۔ احمد شاہ کو ایک اور تاریخی سلسلہ شروع کرنے پر خراج تحسین پیش نہ کرناکراچی شہر،ادب وثقافت اور ان شعبوں سے وابستہ شخصیات سے ان کے عشق کی توہین ہوگی۔ احمد شاہ اب ایک شخص نہیں ایک زندہ ادبی تحریک کا نام ہے جس کی سرخروئی کے لئے دعا کو ہاتھ اٹھتے ہیں۔