قائد اعظم کے پاکستان کی تقسیم یعنی ’’سقوطِ ڈھاکہ‘‘ کے ذمہ دار تین مرکزی کردار تھے۔آرمی سربراہ صدر جنرل یحییٰ خان، 1970ئکے انتخاب میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کے بھاری اکثریت سے منتخب شیخ مجیب الرحمٰن اور مغربی صوبے میں اکثریت حاصل کرنے والے پی پی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح کے ساتھ ساتھ ستّر کی دہائی سے ان تین بڑوں کے حوالے سے ’’ٹرائیکا‘‘ کی سیاسی اصطلاح کابھی آغاز ہوا۔سینکڑوں نہیں،ہزاروں کتابیں تو اس موضوع پر آچکی ہیں۔ مگر تاریخ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کا اصل اور سب سے بڑا مجرم کون تھا۔جنرل یحییٰ خان کا فوجی ٹولہ۔ ۔ ۔ جو تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر ڈٹا رہااور جس کیلئے اُس نے لاکھوں بنگالیوں کو خون میں نہلا دیا ۔ ۔ ۔شیخ مجیب الرحمٰن جو بنگالی زبان کو اُس کا حق دلانے کی خونی تحریک کے بعد سے علیحدگی کے راستے پر چل پڑ ا تھا۔ ۔ ۔ اور پھر جس نے محرومیوں سے لبریز جلتے سلگتے چھ نکات پر مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل کرنے کے بعد بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی ۔ ۔۔ یا پھر پی پی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو ۔ ۔ ۔جنہوں نے اقتدار کی خاطر جنرل یحییٰ خان سے گٹھ جوڑ کر کے مشرقی پاکستان میں ہونے والی فوج کشی پر خدا کا شکر ادا کیا۔ ۔ ۔ بہر حال پیپلز پارٹی کے بانی ،پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تاریخ نے یہ موقع دیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کر کے ایوبی دور کی سویلین ،ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹھکانے لگادیتے۔۔ ۔یہ وہ وقت تھا کہ جب سقوط ڈھاکہ کے بعد 23سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کرنے والے منہ چھپائے پھر رہے تھے۔ بھٹو صاحب ایک مضبوط وزیر اعظم ہی نہ تھے بلکہ ایک ملک گیر گراس روٹ پارٹی کے چیئر مین بھی تھے۔۔ مگر اسے تاریخ کا جبر ہی کہا جائے گا کہ اقتدار میں آنے کے بعد سالوں نہیںمہینوں میں ان کے اندر کا ’’فیوڈل ‘‘ پھنکارتا ہوا باہر آگیا۔جدو جہد اور قربانیاں دینے والے جیالے گورنروں ،وزرائے اعلیٰ ،وزیروں ،مشیروں کی جگہ چاپلوس ،موقع پرست راتوں رات جیالے بن کر بھٹو صاحب کے دست و بازو بن گئے۔پارٹی تو خیر سے رخصت ہوئی ہی مگر حکومت بھی اُن سویلین ،ملٹری بیوروکریٹس کے ہاتھوں میں آگئی جنہوں نے پوری ایک دہائی ،ایوبی آمریت کی دہلیز پر سجدہ ریزی کی تھی۔یوں مارچ 1977ئکے انتخابات کے آتے آتے ایک ایسی سویلین ،ملٹری ،اسٹیبلشمنٹ مضبوط اور توانا ہوچکی تھی۔ جس کے کاندھوں پر سوار ہوکر جنرل ضیاء الحق کو اقتدار میں آنے ،ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی چڑھا کر ،پارلیمانی جمہوریت کا جنازہ نکالنے میں کوئی بہت زیادہ دشواری پیش نہیں آئی۔1970کے ٹرائیکا یعنی’’ یحییٰ ،مجیب ،بھٹو‘‘کی جگہ اسّی کی دہائی میں ایک نیا ٹرائیکا وجود میں آچکا تھا۔مگر اس کی ہیئت ذرا مختلف تھی ۔ اسٹیبلشمنٹ کی اس نئی ٹرائیکا کے سرخیل جنرل ضیاء الحق، عدلیہ کے سربراہ جسٹس انوارالحق ،اور بیورو کریسی کے بادشاہ گر غلا م اسحاق خان تھے۔اس ٹرائیکا نے بڑے ٹھاٹ سے پوری ایک دہائی حکومت کی۔ یہ درست ہے کہ اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کارکنوں نے،جیلوں کی کال کوٹھریوں ،کوڑوں جیسی بہیمانہ سزاؤں ۔ ۔ ۔ حتیٰ کہ پھانسی کے پھندے چوُم کر ایک بار پھر بھٹو کی پارٹی کو زندہ کردیا۔یہی نہیں بلکہ بھٹو صاحب کی صاحبزادی بینظیر بھٹو کو جنرل ضیاء الحق کے مرحوم ہونے کے بعد ہونے والے انتخابات میں دسمبر 1988ء میں ایک بار پھر اس بات کا موقع ملا تھا کہ وہ انکار کر کے اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرتیں۔مگر دس سال تک مار کھانے والے جیالوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا تھا۔یوں محترمہ بے نظیر بھٹو جب وزیر اعظم بنیں تو انہیں فوجی آمرجنرل ضیاء الحق کے دو وارثوں یعنی غلام اسحا ق خان کو بحیثیت صدر ِ مملکت اور وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کوقبول کرنا پڑا۔معذرت کے ساتھ کہ میں مورخ اور مصنف نہیں ہوں۔ اسٹیبلشمنٹ ایک ایسا موضوع ہے جس میں حوالے اور تحقیق کے بغیر آگے نہیں بڑھنا چاہئے۔ابتداء میں ،میںایک فاش غلطی کر بیٹھاکہ 1954ئمیں دستور ساز اسمبلی توڑنے والے جسٹس منیر کو تو بھلا ہی بیٹھا کہ اصل میں جمہوریت اور سیاسی جماعتوں پر کاری ضرب تو لگی ہی۔ ۔ ۔اوّل مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی منتخب حکومت توڑ کر، دوئم گورنر جنرل غلام محمد کے حکم پر دستور ساز اسمبلی کو گھر بھیج کر اس آمرانہ فیصلے پرصاد کرنے والے ہمارے لائق قائد،چیف جسٹس محمدمنیر تھے۔ جس کے پیچھے پس پردہ کردار سکریٹری دفاع اسکندر مرزا کا تھا۔پشت پر آرمی چیف جنرل ایوب خان بھی تھے مگر اتنے موثر اور نمایاں نہیں۔ سو ہماری مقدس اسٹیبلشمنٹ تو 1954ئسے ہی پھلنا پھولنا شروع ہوگئی تھی اور پھر جس کی جڑیں اکتوبر 1958ء کے مارشل لاء کے بعد سے جو مضبوط ہونا شروع ہوئیں تو 90ء کی دہائی تک یہ ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرچکی تھیں۔جس کی چھتر چھاؤں میں مستقبل میں ہماری غریب ،بیمار ،مسکین جمہوریت کوگھٹنوں گھٹنوں چلنا تھا۔ بصد احترام جس طرح قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کو اس بات کا موقع ملا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت سے مفاہمت کر کے ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘کے بت کوتوڑ کر ایک مستحکم پارلیمنٹ کی بنیاد رکھتے، وہیں اُن کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی کم و بیش دو دہائی بعد اس بات کا موقع ملا کہ وہ قومی اسمبلی میں اکثریت ہوتے ہوئے ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرکے اُس اسٹیبلشمنٹ کو پنپنے سے روکتیں جو اب تین نہیں چارپایوں پر کھڑاہونے جارہی تھی۔اس نئی اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ شریف خاندان تھا۔۔۔ ہمارے محترم سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق وزیرا علیٰ اور حال کے ن لیگی صدر محترم میاں شہباز شریف کے والد محترم مرحوم میاں محمد شریف کاکاروبار لوہے کا تھا۔ ۔ ۔ اس لوہے کے کاروبار میں ہاتھ سیاہ کر کے بڑی محنت اور ریاضت سے شہرت و ثروت کی ایک empireکھڑی کردی۔ساتھ ہی جنرل ضیاء الحق کی آمد کے بعد اپنے دونوں نوجوان ہونہار بیٹوں کی انگلی جنرل جیلانی کو پکڑ ا دی۔ یقینا دونوں بھائی محاورے کی زبان میں ’’سونے کا چمچہ ‘‘ لے کر پیدا ہوئے۔اور سیاست میں اس بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی کہ سارے پاکستان خاص طور پر پنجا ب میں اُن کے سیاست کے پھریرے لہرا رہے تھے۔ان کے مقابل بھٹو خاندان کا سارا سرمایہ جیالوں اور شہادتوں کا تھا۔مگر اسی دوران بھٹو خاندان میں زرداری خاندان شامل ہوچکا تھا ۔یوں پاکستانی سیاست کا محور و مرکز یہ دو بڑے خاندان بن گئے۔ مگر بات اگر یہیں تک رہتی تو جمہوریت کا کارواں چلتا رہتا۔مگر بدقسمتی سے دونوں مین اسٹریم جماعتوں نے اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے کے لئے پنڈی آب پارہ کا شارٹ کٹ تلاش کیا۔اس کی تفصیل کے لئے آئندہ کالم اٹھا رکھتا ہوں۔ (جاری ہے)