اشرف غنی طالبان قیدیوں کی رہائی اور طالبان سے مصالحتی عمل میں تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں، جس کے باعث گزشتہ ہفتہ افغان طالبان نے کابل حکومت کے ساتھ قیدیوں کی رہائی پر بات چیت ختم کردی اور ان کا وفد افغان دارلحکومت سے واپس قطر روانہ ہوگیا۔تئیس مارچ کو امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپوکابل گئے تھے جہاں انہوں نے اشرف غنی کو صاف صاف بتادیا تھا کہ وہ طالبان سے مصالحتی معاہدہ پر عملدرآمد کریں ورنہ امریکہ یکطرفہ طور پر اپنی تمام افواج افغانستان سے نکال لے گا اور انکی حکومت کو ایک ارب ڈالر کی وہ امداد نہیں دے گا جسکا وعدہ کیا گیا تھا۔ امریکہ کی اس تنبیہ کے باوجود اشرف غنی نے طالبان سے حالیہ بات چیت میں سخت روّیہ اختیار کیا اور اُن پندرہ سینئرطالبان کمانڈروں کو قید سے رہا کرنے سے انکار کردیاجس کامطالبہ طالبان کررہے تھے۔ حالانکہ طالبان نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی بار کابل انتظامیہ کے وجود کو عملی طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس سے بات چیت شروع کی تھی۔ مائک پومپیو کے کابل میں ناکام مشن کے بعد امریکہ کی جنوبی اور وسط ایشیا کے لیے نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے بھی چند روز پہلے تنبیہ کے انداز میں یہ بیان دیا کہ امریکہ افغانستان کو اسی صورت میں مالی امداد دے گا جب وہاں تمام فریقوں پر مشتمل حکومت قائم ہوگی۔ انہوں نے ایک ٹویٹ کیا تھا جس کا لب و لہجہ خاصا سخت تھا۔ اس پیغام کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ اب بین الاقوامی امداد دینے والے افغانستان میں پہلے کی طرح کام نہیںکریں گے۔ عالمی امدادسب فریقوں پر مشتمل حکومت کو ہی دی جائے گی۔اس اعتبار سے ایلس ویلز کی تنبیہ پومپیو سے بھی ایک قدم آگے تھی کہ انہوں نے نہ صرف امریکی امداد بلکہ تمام عالمی امداد کو افغان امن عمل اور وسیع البنیاد حکومت کے قیام سے مشروط کردیا۔یہ امریکی وارننگ اس لیے بہت اہمیت رکھتی ہے کہ افغانستان حکومت کا اسّی فیصد سے زیادہ بجٹ بیرونی امداد پر مشتمل ہے۔ امریکہ اور دیگر ممالک گزشتہ اٹھارہ برسوں میں کابل حکومت کو براہ راست ایک سو چالیس ارب ڈالر سے زیادہ رقم دے چکے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو کااپنی فوجیں افغانستان میں رکھنے پر جو اخراجات ہوئے وہ اس کے سوا ہیں۔ ان حالات میں اشرف غنی کا طالبان سے مذاکرات میں ہٹ دھری پر مبنی روّیہ بلاوجہ نہیں ہے۔ جب انتیس فروری کو امریکہ اور طالبان نے قطر میں امن معاہدہ پر دستخط کیے تھے ۔اس سے اشرف غنی کو اندازہ ہوگیا تھا کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ مستقبل میں افغانستان میں طالبان کو اپنا بڑااتحادی اور شریک کار بنانا چاہتی ہے۔امریکہ افغانستان میںجو وسیع البنیاد حکومت بنانے کی بات کررہا ہے اس میںطالبان غالب ہونگے ۔اشرف غنی اور ان کی اتحادی لبرل اشرافیہ اقتدار میں جونئیرحصہ دار ہونگے۔ امریکہ کے طالبان سے معاہدہ کے نتیجہ میں بھارت کو بھی بڑا دھچکہ پہنچا ہے کیونکہ وہ امریکہ کا شریک کار بن کر افغانستان اور وسط ایشیا میں اپنے ایجنڈے کو فروغ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا تھا۔بھارت کی پالیسی یہ رہی ہے کہ کابل میں ایسی حکومت قائم رہے جو علاقائی سیاست میںاس کی حامی اور پاکستان کی مخالف ہو‘ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں اس کی مددگار ہو۔امریکی پالیسی میں تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں بھارت کا کردار کم سے کم رہ جائے گا جبکہ پاکستان کا کردار زیادہ اہم ہوجائے گا۔ امریکہ اور طالبان معاہدہ صرف افغانستان نہیں بلکہ علاقائی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ اس معاہدہ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ امریکہ کی وسط ایشیائی تزویراتی پالیسی میںبھارت کی جگہ پاکستان کو مرکزی اہمیت حاصل ہوگی۔ بھارت کے لیے یہ ایک بڑا صدمہ ہے۔ اسی لیے بھارت طالبان کے خلاف اشرف غنی حکومت کی بھرپور مدد کررہا ہے۔ بھارت کا کابل کی لبرل اشرافیہ میں گہرا اثر و رسوخ ہے جس پر وہ بھاری سرمایہ کاری کرتا ہے۔اشرف غنی کے ارد گرد جو لوگ ہیں انکے دہلی کے حکمرانوں سے گہرے روابط ہیں۔موجودہ حالات میں ان دونوں کا مشترک مفاد یہ ہے کہ طالبان کو کابل میں حکومت بنانے کا موقع نہ مل سکے۔ مصالحتی عمل کو اتنا طویل اور پیچیدہ بنادیا جائے کہ امریکہ اور طالبان کا امن معاہدہ غیر مؤثر ہوجائے۔ یہ دونوں پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ امریکہ کے افغانستان میں طویل مدتی‘ تزویراتی مفادات ہیں۔ وہ اگر یکطرفہ طور پر فوجوں کا انخلا کرے گا ،تو اسکے خطہ میں مفادات اور اسکی ساکھ کو سخت نقصان پہنچے گا ۔اس لیے صدر ٹرمپ اپنی دھمکی پر عمل نہیں کرسکیں گے۔ بھارت سفارتی سطح پر ہر وہ کوشش کرے گا جس سے صدر ٹرمپ کواپنی دھمکی پر عمل کرنے سے کچھ عرصہ کے لیے باز رکھا جاسکے۔ منصوبہ یہ ہے کہ وسیع البنیاد حکومت کے قیام میں کم سے کم اتنی تاخیر ہو جائے کہ اس سال نومبر میںامریکہ کے صدارتی الیکشن گزر جائیں ۔ ہوسکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن ہار جائیںاور نیا ڈیموکریٹک صدرانکی پالیسی جاری نہ رکھے‘ طالبان سے معاہدہ توڑ دے۔یوں ایک بار پھر بھارت اور افغان لبرل اشرافیہ کا گٹھ جوڑکابل پر براجمان رہے۔ تاریخی حقیقت ہے کہ ڈیموکریٹ صدورپاکستان کی بجائے بھارت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں ۔ امریکہ اور طالبان کے معاہدہ کے بعد بھارت نے اشرف غنی کو ڈٹ جانے کی تھپکی دی ہے جس سے اُن کے حوصلے بلند ہوئے ہیں ورنہ وہ اور افغان لبرل اشرافیہ اس پوزیشن میں نہیں کہ ایک دن بھی امریکی امداد کے بغیر گزارہ کرسکیں‘ نہ وہ امریکی افواج کی مدد کے بغیر طالبان کی عسکری طاقت کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔اگلے چند مہینوں میں واضح ہوجائے گا کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے افغان منصوبہ پرکس قدر ثابت قدمی سے عمل کرتی ہے اور طالبان غنی انتظامیہ پر اپنا دباؤ کس قدر بڑھاتے ہیں۔