رات مری میں برف اترتی رہی ، صبح سفیدی اوڑھے وادی کے سحر میں کھویا تھا کہ خبر ملی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایک طالب علم کا قتل ہو گیا ہے۔برفزار کا رنگ گویا سرخ ہو گیا اور دل لہو سے بھر گیا۔سید طفیل الرحمن ہاشمی ، کیا خوبصورت نوجوان تھا۔ میں زندگی سے بھر پور اس جوان رعنا کی ہنستی مسکراتی تصویر کو دیکھتا ہی رہ گیا ۔ دور کہیں برفزاروں میں اس کی ماں کی آنکھوں میں کتنے ہی سپنے ہوں گے اور باپ کے کتنے ہی ارمان ہوں گے جو اس خوبصورت وجود کے ساتھ دفن ہو جائیں گے۔برف اب رک چکی تھی ، گاہے ہوا چلتی اور درختوں سے لپٹے گالے اڑ نے لگتے۔ برف زاروں سے پرانا تعلق ہے لیکن برفزاروں میں ایسی اداسی کبھی نہ تھی۔خالد احمد یاد آ گئے: کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے اسی لیے تو و ہ بچوں کو مائیں دیتا ہے یہ لاشہ اسلامی یونیورسٹی سے اٹھا تھا۔اس جامعہ کے درودیوار سے وہی محبت ہے جو کسی کو اپنے گھر سے ہوتی ہے۔آج بھی کبھی کبھی بلاوجہ کویت ہاسٹل کشمیری ہٹ پر چلا جاتاہوں، چائے پیتا ہوں اور وہاں بکھری اپنی یادوں کو سمیٹتا رہتا ہوں۔ ان درو دیوار سے برسوں کی وابستگی کا ادنی سا تقا ضا تھا کہ اب اس گھر سے اٹھائے لاشے کو کندھا دیا جائے اور جنازے میں شریک ہو کر اللہ کے حضور دست دعا دراز کیا جائے۔ برادرم سیف اللہ گوندل کا فون آیا اور انہوں نے بتایا کہ جنازہ تو پڑھایا جا چکا۔ماں نے نازوں سے پال کر ایک زندہ وجود تعلیم حاصل کرنے اتنا دور بھیجا تھا ، طلباء سیاست کے خون آشام درندے نے اسے تابوت میں ڈال کر ماں کو بھیج دیا۔ یہ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان کا لاشہ نہیں، یہ ا س سماج کا لاشہ ہے، یہ ہمارا ااور آپ کا لاشہ ہے۔ کتنا خوبصورت نوجوان تھا اور کس بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ نوجوان پاکستان کا مستقبل تھا۔ سوال اب بڑا سادہ سا ہے : کیا ہم یہ عہد کر سکتے ہیں کہ آئندہ کسی ماں کو اس کا بیٹا تابوت میں ڈال کر نہیں بھیجا جائے گا؟ ہم کب تک اپنے تعلیمی اداروں کو اکھاڑہ بنائے رکھیں گے؟ اہل سیاست کی ہوس کب تک طلباء کے مستقبل سے اور ان کے ماں باپ کے ارمانوں سے کھیلتی رہے گی؟ اسلامی جمعیت طلبہ کے بہت سے لوگوں سے میرا محبت کا تعلق ہے۔ میں سوچتا ہوں اٹھتی جوانیوں میں ان جیسا کوئی ہو سکتا ہے؟ یہ عمر کے اس حصے میں درس قرآن کی مبارک محفلیں سجاتے ہیں جب دوسرے صرف قہقہے لگانے کو ہی مقصد حیات سمجھتے ہیں۔یہ تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں اور مقصدیت سے بھی دور نہیں ہوتے ، یہ رمضان میں اپنے اہتمام میں قوس قزح جیسے رنگ بھر دیتے ہیں ، یہ نمازیں قائم کرتے اور ان کی تلقین کرتے ہیں،یہی لسانیت اور قومیت کے تعصبات سے بلند ہیں ، خوش گفتار اور با کردار ہیں۔ یہ واحد طلباء تنظیم ہے جس کے شہیدوں کا لہو پاکستان کے لیے بہا اور اتنا بہا کہ آج بھی ،مشرقی پاکستان سے اس کی مہک آتی ہے ایسی شاندار روایات اور ایسے نجیب نوجوان۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ کیمپس کی سیاست کی نذر ہو گئے۔ آپ ان کا صبر دیکھیے ، ایک جوان رعنا کا لاشہ اٹھا کر بھی انہوں نے توڑ پھوڑ نہیں کی۔ نہ مادر علمی میں نہ ہسپتال میں۔ قاتلوں میں سے ، شنید ہے ، کچھ پکڑے گئے لیکن انہیںپولیس کے حوالے کیا گیا۔ اب وہ قانون سے انصاف کے طالب ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔ضبط کا یہ مظاہرہ کیا کوئی معمولی مظاہرہ ہے ، ہر گز نہیں۔یہ خیر کی ایک معمولی قوت کا اظہار ہے لیکن افسوس خیر کی اتنی غیر معمولی قوت طلباء سیاست میں گروہ بندی کے آزار کا شکار ہو جاتی ہے۔ کیا ہم اب بھی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ طلباء سیاست نے ہمیں کیا دیا؟ ہم کتنے لاشے اٹھائیں گے؟ ہم کب تک اپنے تعلیمی اداروں کو میدان جنگ بنائے رکھیں گے؟ ابھی کل ہی خواجہ سعد رفیق نے طلباء سیاست پر اپنا درد دل قوم کے سامنے رکھا اور کہا کہ اگر کیمپس میں یونین کلچر لانا ہے تو آئیے تمام سیاسی جماعتیں مل کر حلف دیں کہ ہم طلباء سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے اور وہاں اپنے اپنے جتھے منظم نہیں کریں گے۔کیا کوئی جماعت ہے جو یہ حلف نامہ دے سکے؟ جنہیں مفت کے رضاکار مل رہے ہوں وہ ایسا حلف نامہ کیوں دیں گے؟اب تو تحریک انصاف کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ اپنا طلباء ونگ قائم کرنے کے کیا فوائد ہو سکتے ہیں چنانچہ اب ایک عدد انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی میدان عمل میں ہے۔ اسلامی یونیورسٹی میں یہ حادثہ کیسے ہوا؟ اس پر اہم ذمہ داران سے بات ہوئی ہے۔تصادم کے ماحول میں کوئی سچ نہیں سننا چاہتا لیکن سچ تو سچ ہوتا ہے۔بس اتنا جان لیجیے کہ حادثہ اچانک نہیں ہوتا ۔ بہت کچھ سلگ رہا ہوتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے وہ آتش فشاں بن جاتا ہے۔ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود جمعیت نے یہ ذمہ داری اپنے سر لی ہوئی ہے کہ اسے کیمپس کو صراط مستقیم پر رکھنا ہے۔اس کوشش میں کبھی پلڑا بھاری ہو جاتا ہے اور کبھی جواب میں کوئی جتھہ منظم ہو کر یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہمارا کلچرل شو نہیں ہو سکتا تو تمہارا پروگرام کیسے ہو سکتا ہے۔اس میں قاتل اور مقتول اور ظالم اور مظلوم کی صرف ترتیب بدلتی ہے۔کھیل سب ہی کھیلتے ہیں۔ انتظامیہ کے نصف درجن سے زیادہ اہم افراد سے بات ہوئی اور میرے لیے یہ باعث حیرت ہے کہ سب نے ریکٹر جناب معصوم یاسین زئی پر انگلی اٹھائی کہ انہوں نے میرٹ کو پامال کرتے ہوئے یہاں کچھ لوگوں کو داخلے دلوائے۔ گویا انتظامیہ نے ایک منصوبے کے تحت یونیورسٹی کو اکھاڑہ بنایا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ شعبہ قانون میں ایک پورا سمسٹر ایسے طلباء کے لیے شروع کرایا گیا جو میرٹ پر پورا نہیں اترتے تھے۔ معلوم نہیں اس الزام میں کتنی صداقت ہے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کو اس نکتے کی وضات ضرور کرنی چاہیے ۔ یہ بات اگر سچ ہے تو یہ مجرمانہ غفلت ہی نہیں یہ جرم بھی ہے۔ ہمیں بطور قوم سوچنا ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو اکھاڑہ بنانا ہے یا علم و تحقیق کا مرکز۔ اگر ہم نے انہیں علم و تحقیق کے مراکز میں بدلنا ہے تو یہاں کسی طلباء تنظیم کی کوئی ضرورت ہے نہ کسی یونین کی۔ہمیں تعلیمی اداروں میں کسی سبز انقلاب کی ضرورت ہے نہ کسی لال انقلاب کی اور نہ ہی کسی لسانی تعصب کی آلودگی کی۔طلباء سیاست طلباء کی ضرورت نہیں ہے ، یہ ہمارے سیاست دانوں کی واردات ہے جو صرف ان اداروں میں کی جاتی ہے جہاں غریب اور متوسط طبقے کے بچے پڑھتے ہیں۔ جنہیں مائیں زیور بیچ کر تعلیم کے لیے بھیجتی ہیں اور عین جوانی میں انہیں تابوت میں ڈال کر مائوں کو بھیج دیا جاتا ہے۔