لاہور ہائی کورٹ نے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف درخواست پر ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے ابھی تک میکنزم کیوں طے نہیں کر سکی۔ مہذب معاشروں میں عوام کو اشیائے خورونوش کی مناسب قیمتوں پر فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے نہ صرف قانون سازی کی جاتی ہے بلکہ قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں آزادی کے بعد ہر کوئی من چاہی قیمتیں وصول کرنے میں آزاد محسوس ہوتا ہے۔ کہنے کو تو پاکستان میں اشیائے خوردنی ایکٹ 1958ء اشیاء ضروریہ ایکٹ 1973ء کی صورت میں متعدد قوانین اور ان پر عملدرآمد کے لیے صوبائی،ڈسٹرکٹ اور تحصیل سطح پرمحکمے بھی موجود ہیں مگر سرکاری اہلکاروں کی دلچسپی اپنے فرائض کی انجام دہی کے بجائے مٹھی گرم کرنے تک ہی محدود ہوتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جن اداروں کے ذمہ معیاری اور ارزاں نرخوں پر عوام کو اشیائے خورونوش فراہم کرنا ہے ان کے اہلکار مارکیٹ سے نذرانے اور بھتہ وصول کر کے عوام کو تاجروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر کہیں برائے نام ریٹ لسٹ لگائی بھی جاتی ہے تو قیمت کا تعین بھی تاجر مافیا اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ بہتر ہو گا حکومت آئے روز نئے ادارے اور ٹاسک فورسز بنانے کے بجائے پہلے سے موجود قوانین، اداروں کو فعال کرے اور قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنائے تا کہ عوام کو مناسب داموں اشیائے ضروریہ کی فراہمی ممکن ہو سکے۔