نوازشریف اس لحاظ سے تاریخی رہنما بن گئے ہیں کہ جتنے تاریخی فیصلے ان کے خلاف آئے، کسی اور کے خلاف نہیں آئے۔ قریب دو عشرے پہلے پرویز مشرف نے بھی ایک بڑا تاریخی فیصلہ ان کے خلاف دیا تھا۔ نوازشریف نے ایک طیارہ ہائی جیک کرلیا تھا، بطور وزیراعظم، مشرف نے انہیں لگ بھگ عمر قید کی سزا سنائی۔ اس فیصلے میں بھی انصاف کے تقاضے پوری طرح پورے کئے گئے تھے اورقانون کی بالادستی کو یقینی بنایا گیا تھا۔ قانون اور انصاف چند حلقوں نے اس منصفانہ فیصلے کا تب بھی بھرپور خیر مقدم کیا تھا۔ البتہ سنا ہے ایک اینکر پرسن پوری طرح مطمئن نہیں تھا، اس نے اس سزا کو کم قرار دیا تھا اور اپنے کالم میں نوازشریف کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان اینکر پرسن اور کالم نگار کی یاد یوں بھی آئی کہ جمعہ وقفہ کو جو تاریخی فیصلہ دیا گیا ہے، قبلہ علامہ نے اس کا خیر مقدم تو کیا ہے لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ سزا بہت کم ہے۔ یعنی اور نہیں تو کم از کم سزائے موت تو دیتے۔ ٭٭٭٭٭ گزشتہ برس تو پے در پے تاریخی فیصلے آئے۔ ایک فیصلہ پانامہ کیس کا تھا جس میں سے اقامہ برآمد ہوا اور پانامہ کیس انتخابی عذرداری میں بدل گیا۔ ملزم کے بارے میں انکشاف ہوا کہ وہ دبئی کی کسی فرم میں اپنے بیٹے سے تنخواہ وصولی کا حقدار تھا۔ اگرچہ اس نے تنخواہ وصول نہیں کی تھی لیکن ازراہ قانون تنخواہ بھلے ہی وصول نہ کی جائے، ہے تو اثاثہ ہی اور ملزم نے انتخابی فارم میں اس ناوصول کردہ اثاثے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ چنانچہ بالکل برحق طور پر ملزم کو نااہل قرار دیا گیا۔ انصاف پسند حلقوں نے اس کی تاریخی ستائش کی، بعدازاں یہ نااہلی عمر بھر کے لیے کردی گئی۔ ٭٭٭٭٭ عمران خان نے حالیہ تاریخی فیصلے پر اوپر والے کا شکر ادا کیا اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ مٹھائیاں کھائیں اور دو نفل پڑھیں۔ کارکنان نے مٹھائیاں کھائیں اور مٹھائی کھانے کھلانے کی تصاویر میڈیا پر نشر اور شائع کروائیں۔ نفل پڑھنے کی تصاویر کا ابھی تک انتظار ہے۔ شاید کارکنان نے ازراہ تقویٰ نوافل ادا کرنے کی تصاویر کھنچوائی ہی نہ ہوں، اس ڈر سے کہ کہیں ریا کاری نہ گنی جائے۔ آخر اہل صفا ہیں، اصحاب تقویٰ ہیں، خوش کردار و خوش گفتار ہیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ دھلے دھلائے صادق و امین حضرات ہیں، خلاف شرع ہونے کا شائبہ بھی جس کام میں ہو، اس سے گریز کرتے ہیں۔ نوازشریف کی طرح تو نہیں کہ حج پر جائیں تو تصویر آئے، عمرہ کریں تو آئے، داتا صاحب کے مزار کو غسل دیں تو بھی تصویر آئے۔ چنانچہ نوافل کی تصاویر کا انتظار بے کار ہے۔ ٭٭٭٭٭ خان صاحب نے کہا تاریخ کے سب سے بڑے ڈاکو کو تین ہزار کروڑ ارب چوری کرنے کی سزا مل گئی ہے۔یہاں البتہ صادق و امین خان صاحب کو تھوڑا سہو ہوا۔ سب سے بڑے ڈاکو کو ڈاکے کی سزا ملی نہ چوری کی، نہ ہی کرپشن کی کسی واردات کی۔ اسے سزا اس بات کی ملی کہ اس کے اثاثے آمدنی سے بڑھ کر ہیں۔ اثاثے آمدنی سے بڑھ کر ہوں تو سزا لازم ہو جاتی ہے لیکن اس کے لیے لزامت اولیٰ یہ ہے کہ ایک تو یہ ثابت کیا جائے کہ اثاثے ملزم ہی کے ہیں، پھر یہ تعین کیا جائے کہ آمدنی کتنی ہے۔ ملزم نے کہا، اثاثہ میرا نہیں ہے، کسی نے کہا ہمیں لگتا ہے تمہارا ہی ہے، بات ختم۔ کیا یہ دونوں تعینات ہو گئے ہیں؟ خان صاحب بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ ہم تو چار دنا چار یہی کہہ سکتے ہیں کہ برحق فیصلہ تھا، قانون کی بالادستی یقینی بنائی گئی۔ انصاف کے تمام تقاضے پورے کردیئے گئے اور تمام تعینات اگر نہیں ہوئے تو بھی جلدی کیا ہے، آنے والے وقتوں میں ہوتے رہیں گے۔ سارے تاریخی فیصلے لوگ ہی نہیں لکھتے، کچھ تاریخی فیصلے تاریخ بھی لکھتی ہے اور کیا پتہ، تاریخ نے اپنا تاریخی فیصلہ لکھنا شروع بھی کردیا ہو یا شاید لکھ چکی ہو اور ’’محفوظ‘‘ کرلیا ہو۔ تاریخی فیصلہ تبدیلی کا باب ہوتا ہے۔ تبدیلی کے معنے یہاں تبدیلی ہی لے لیجئے۔تبدیلی کب آتی ہے؟ تب آتی ہے جب لوگ ’’بے راہ اور سرکش‘‘ ہو جائیں۔ پنجاب کی ’’راہروی‘‘ اور سلامت روی تاریخ کا حصہ ہے، یہ راہروی اس کا کلچر سمجھی جاتی رہی ہے چھوٹے صوبے اس ’’راہروی‘‘ پر گریہ کرتے رہے۔ ایک قوم پرست رہنما نے کہا، جب پنجاب ’’سرکشی‘‘ کرے گا، قائداعظم کا پاکستان وجود میں آ جائے گا۔ وہ پاکستان جسے بنایا تو قائداعظم نے لیکن جس پر تسلط کچھ اور لوگوں کا ہوگیا۔ کچھ اور لوگ کون ہیں؟ اس سوال کا جواب چودھری نثار سے پوچھا جاسکتا ہے۔ اب کیا لگ رہا ہے؟ کچھ عرصے سے فضا میں سرکشی کا تناسب بڑھتا ہی نہیں جارہا؟ صدیوں کے صحرا ’’پنجاب‘‘ کے افق پر طوفان بادو باراں کی نمود ہے، یہی نمود تبدیلی ہے۔ ٭٭٭٭٭ ’’اصحاب الجیپ‘‘ کو مسلم لیگ نواز کے لیے پیغام سمجھا جارہا تھا اور کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔ زیادہ نقصان اسی کو پہنچا۔ پندرہ افراد نے آخری تاریخ گزرنے کے بعد ٹکٹ واپس کردیئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ 15 سیٹوں پر الیکشن لڑے بغیر ہی ہار گئی۔ حالیہ تاریخی فیصلے کے بعد اس کے دو امیدوار اور کم ہو گئے لیکن…لیکن یہ کہ اب کچھ اور ہی پتہ چل رہا ہے۔ اصحاب الجیپ اصل میں تو خان صاحب کے لیے پیغام ثابت ہورہے ہیں۔ نجی محفلوں میں خان صاحب ان جیپ والوں کے لیے جو کچھ ارشاد فرما رہے ہیں، وہ معانی کا چبستان سمجھ لیجئے یا جہاں، سننے والے ہی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ذرا سوچئے، منصوبے کے مطابق 50 عدد اصحاب الجیپ کامیاب ہو گئے تو وزارت عظمیٰ کا تاج اپنی دانست میں پہن چکنے والے خان صاحب کہاں کھڑے ہوں گے؟ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا بیک وقت پیغام زرداری کے لیے بھی ہے کہ میاں، کنگ میکر کوئی اور ہوگا۔ ٭٭٭٭٭ سکرپٹ بدلتا ہے اور کس تیزی سے، اس کا پتہ زرداری صاحب کو چل گیا ہے۔ خان صاحب وزیراعظم بن چکے ہیں اور زرداری صاحب صدر مملکت لیکن اب دونوں کو لگ رہا ہے کہ ہاتھ ہو گیا۔ زرداری صاحب نے ایک اخبار نویس کو بتایا کہ میں نے انہیں بتا دیا ہے (انہیں کی وضاحت تحریر میں نہیں ہے لیکن اشارہ محکمہ زراعت کی طرف واضح ہے) کہ جو سلسلہ نوازشریف سے شروع ہوا ہے وہ نوازشریف پر ہی ختم ہو جانا چاہیے ورنہ ہمارے پاس ’’ورنہ‘‘ کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ زرداری صاحب نے بات سمجھنے میں دیر کردی، اب تو بات بڑھ کرسوا سیر کی ہو چکی۔ ٭٭٭٭٭ خان صاحب نے مولانا فضل الرحمن کو ’’مقناطیس‘‘ قرار دیا ہے۔ بات ’’عالم وجد‘‘ میں کہی گئی ہوگی ورنہ اتنے ناخواندہ تو خان صاحب نہیں کہ مقتاطیس کی خاصیت اور خصوصیت نہ سمجھتے ہوں یا شاید وہ اپنے بارے میں بتانا چاہتے ہوں کہ وہ اور جو کچھ بھی ہوں، آہن بہرحال نہیں ہیں، ہوتے تو اڑ کر مولانا سے چپک چکے ہوتے۔