اب یہی ہونے لگا ہے کہ بدقسمتی سے یہاں کسی خاتون سے بدتمیزی کا کوئی واقعہ رپورٹ ہوتاہے اور وہاں ’’روشن خیال بریگیڈ‘‘اپنی تاریک سوچ کی توپیں دم کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر صف آراء ہوجاتا ہے ،خدانخواستہ اگر ملزم داڑھی والا ہو تو پھر معلم مدرس ہدف بنتا ہے او ر اگرملزم کسی دفتر کا صاحب ،بابو یا مسٹر ہو تو تب نشانہ مرد ذات ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کی مختلف ویب سائٹس پر پہلا جملہ ہی یہی ہوتا ہے کہ یہ مرد ہوتے ہی ایسے ہیں ،انہوں نے معاشرے میں اپنی اجارہ داری بنا رکھی ہے۔معذرت کے ساتھ اس انتہا پسندانہ سوچ کے ردعمل میں پیدا ہونے والی سوچ بھی انتہا پسند ی کی بلندی پر مورچہ زن ملتی ہے ،وہاں سے جھٹ سے ایسے تبصرے شروع ہو جاتے ہیںجنہیں victm blaiming نہ کہاجائے تو کیا کہا جائے ۔نور مقدم کے بہیمانہ قتل کے بعد مینار پاکستان پر ٹک ٹاک والی لڑکی کے ساتھ ہونے والے افسوس ناک واقعے پر قوم ان ہی دو انتہاؤں میں بٹی ہوئی ہے اور ان دو انتہاؤں کی جنگ میں ایسی گرد اڑی کہ سب کے چہرے دھول میں اٹ گئے۔ اس لڑائی میںپڑوسی ملک کے چیخنے چلانے والے اینکروں کواپنے پروگراموں کے لنگر کے لئے مفت کا مرچ مصالحہ مل جاتا ہے اور وہ نئی دہلی سے پاکستانی سوسائٹی کو معتوب قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔بدقسمتی سے انہیں ایک تاریک ذہن سٹھیایاہوا گھٹیا صحافی بھی ملا ہواہے اور کچھ یہاں سے بھی ان کی آواز میں آواز ملانے والے مل جاتے ہیں جس کے بعد اینکر بھی مطمئن ہوجاتا ہے کہ آج کے پروگرام کی ریٹنگ اچھی نکل آئے گی۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ سوشل میڈیا کے میدان میں ہم بری طرح رگیدے جارہے ہیں۔ ہم پر ایک ان دیکھی جنگ دہائیوں سے مسلط ہے اور اسکا آغاز تین دہائیاں پہلے دور درشن کے ’’چترہار‘‘ نامی پروگرام سے ہوا تھا جس کے لئے یہاں ٹیلی وژن کے انٹینوں پر بوسٹر اور سلور کی تھالیاں لگائی جاتی تھیں۔ تب کمپیوٹر کا ذکر مخصوص حلقوں میں تو ہوتا تھا لیکن سوشل میڈیا کے لفظ نے لغت میں جگہ نہیں بنائی تھی ،ہمیں اسی وقت سوچ لینا چاہئے تھا کہ آج بھارتی گانوں کے لئے تیس فٹ کے بانس پر انٹینا لگانے والے کیا کرنے جارہے ہیں اور کل کیا ہونے والا ہے لیکن ہم سوچتے کب ہیں۔ بات دور نکل جائے گی لیکن اس ہائبرڈ وار کا تعلق ان دو انتہاؤں سے بھی ہے جن کا ٹکرانا اور ٹکراتے رہنا دشمن کے ہدف کو آسان بنارہا ہے۔ وہ ہماری معاشرتی اقدار،تہذیب اور ثقافت کواک عرصے سے نشانہ بنائے ہوئے ہے کہ ہمارا معاشرہ لرزتارہے اورپاکستان کی 48اعشاریہ5فیصد خواتین مردوں کے سامنے آکھڑی ہوں۔ اس تحریک کے کئی مقاصد ہیں جن میں ایک مذہب کوہدف بنانابھی ہے، مذہب بیزار طبقہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا کر نوجوانوں کی توجہ حاصل کرلیتا ہے۔ یہ طبقہ بظاہر جنسی سراسیمگی یازیادتی کا شکار ہونے والے فرد کے حق میں کھڑا ملتا ہے اسی لئے بہت سے ایڈوانٹیج بھی اسے حاصل ہوجاتے ہیں یہ اس واقعے کی آڑ میں محرکات ،اسباب پر شور شرابے کی گرد ڈال دیتا ہے ان کے پاس اس قسم کے سارے مسائل کا حل گوروں کی سوسائٹی یا ان کا طرز زندگی ہے جہاں ان کے بقول خواتین بہت زیادہ بااختیار یا طاقت ور ہیں۔ ان سے بات کی جائے تو چھوٹتے ہی کہا جاتا ہے کہ یورپ کے ساحل پر ایک عورت سوئمنگ کاسٹیوم میں گھومتی ملتی ہے لیکن مجال ہے کہ کوئی اسے گھور بھی لے ۔ یہاں تومعصوم بچیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ مغربی امریکی سوسائٹی کا نقشہ خوبصورتی سے کھینچا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب یورپ امریکہ میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح دیکھی جائے تو وہی سوسائٹی جو ساحل سمندر پر سوئمنگ کاسٹیوم میں خواتین پر دوسری نظر نہیں ڈالتے اس بنت حوا کو قدم قدم پررسواکئے دیتی ہے ’’ورلڈپاپولیشن ریویو‘‘ کے مطابق دنیا کے جن دس ممالک میں سب سے زیادہ زنا بالجبر کے واقعات ہوتے ہیں ان میں ایک بھی مسلم ملک نہیں ،ان دس ممالک میں سرفہرست جنوبی افریقہ ہے ،دیگر ملکوں میں چھٹے نمبر پر سویڈن بھی موجود ہے ،پھر یہ کیوںنہ کہا جائے کہ یہ مہذب ہیں تو ہم اجڈ گنوار ہی بھلے ۔جرائم کی راہ روکنی ہے تو اسکے اسباب دیکھنا ہوں گے۔ محرکات پر جاناہوگا ،نفسیاتی سماجی رویوں کاتنقیدی جائزہ لیتے ہوئے حل کی طرف آناہوگالیکن یہ تب ہو نہ جب یہ مقصود ہو جب ہدف ہی مذہب ،اقدار ،کردار کشی ہو تو میرا جسم میری مرضی کے نعرے کیوں نہ لگیں۔ سامنے کی بات ہے ہم اپنی موٹرسائیکل کار کی حفاظت کے لئے ٹریکر اور نجانے کون کون سے حفاظتی نظام کا حصہ بنتے ہیں اور تو اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی حفاظت کے لئے کیسے مشکل مشکل پاس ورڈ رکھتے ہیں لیکن اپنی عزت آبرو کی حفاظت کے لئے حجاب، پردہ اوردیگر احتیاطی تدابیر کو دقیانوسیت کہہ کر مغرب کی طرف بڑھ جاتے ہیں، جہاں سوائے خلفشار ،انتشار اور ندامت کے کچھ نہیں تو پھر یہیں کیوں نہ رکا جائے‘ ٹھنڈے دل سے بات کیوں نہ سمجھی جائے کہ فلاح اسی میں ہے۔