اخبارات پر نظر ڈالیں‘ خصوصاً ان کالموں پر جو ’’ہم‘‘ دانشوروں نے لکھے ہوتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے بہت سے مسائل میں سے تین ذرا ’’آئوٹ سٹینڈنگ‘‘ قسم کے ہیں۔ ایک تو بھاشا ڈیم کا مسئلہ جسے عدالتی پشت پناہی کے ساتھ اب سیاسی تائید بھی حاصل ہو چکی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس کے بارے میں کوئی بات توہین عدالت کی ذیل میں بھی آ سکتی ہے۔ اس وقت اس پر صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں‘ یہ آج کا نیا ایجنڈا نہیںہے‘ یہ ضیاء الحق کے زمانے کا قصہ ہے اسے کالا باغ ڈیم کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا اس کا بننا ناگزیر ہے۔ مشرف نے کالا باغ سے جان چھڑانے کے لیے آخر میں یہ اعلان کیا تھا کہ 2016ء تک پانچ ڈیم بنا لیے جائیں گے۔ ان میں بھاشا اور کالا باغ شامل تھے۔2016ء سے پہلے پیپلز پارٹی نے آتے ہی اپنے پنجابی وزیر بجلی و پانی راجہ پرویز اشرف سے اعلان کرایا کہ کالا باغ کو اب قصہ پارینہ سمجھئے۔اس سے ضروری ہو گیا کہ ہم نے اگر خودکشی نہیں کرنا تو بھاشا ڈیم کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ تاہم اس حکومت کے زمانے میں اس پر کوئی خاص کام نہ ہوا۔ ان کا بس چلتا تو رینٹل پاور کے ساتھ وہ پانی کے رینٹل ذخائر کا بھی بندوبست کر لیتے۔ اس کے بعد کے عہد میں اس منصوبے پر کام جاری رہا۔ اس وقت پہلی بار یہ اعتراض بھی سامنے آ گیا کہ یہ ڈیم ایک متنازعہ جگہ پر ہے۔ کوئی ہمیں مالی مدد دینے کو تیار نہیں ہے۔ اور اب یہ صورت حال آن پہنچی ہے کہ چین نے ہماری اس درخواست پر مثبت جواب دیاہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے نواز شریف سے اس بارے میں استفسار کیا تھا تو انہوں نے وضاحت کی تھی کہ اس میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ کوئی عالمی ادارہ امداد دینے کو تیار نہیں اور یہ منصوبہ اپنے ہی وسائل سے بنانا آسان نہیں ہے۔ اب ایک طرف تو عمران خان نے پاکستانی تارکین وطن کی غیرت کو للکارا ہے۔ اگرچہ اس بارے میں میرے تحفظات ہیں‘ تاہم فضا میں ایک ارتعاش تو پیدا ہوا ہے۔ دوسری طرف شہباز شریف نے بڑے زور شور سے دعویٰ کیا ہے کہ چین اس سلسلے میں ہماری مدد کرنے کو تیار ہو جائے گا۔ کچھ بھی ہو‘ کوئی بھی کرے‘ ہمیں ہر صورت ڈیم بنانا ہے۔ ہم نے پہلے بجلی کے منصوبے تاخیر کا شکار کر کے ملک میں ایک غیر معمولی بحران پیدا کر دیا تھا۔ مشرف اور زرداری کے عہد کے منصوبہ سازوں پر اس کی خاصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ توانائی کا مسئلہ خاصا قابو میں آیا ہے‘ اب سرمایہ کاری کی فضا بھی سازگار ہو رہی تھی کہ ملکی بحران اور عالمی حالات نے ہمیں ٹیک آف نہیں کرنے دیا۔ میں نے یہاں دو باتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک ملکی بحران اور دوسرے عالمی حالات۔ یہ دونوں باتیں غور طلب ہیں۔ خیر اس وقت میں ڈیم پر مضمون باندھنے نہیں بیٹھا‘یہ بتا رہا تھا کہ آج کل اخباروںمیں کون سی تین باتیں زیر بحث ہیں۔ ڈیم کے بعد دوسرا مسئلہ اقتصادی ٹیم کا انتخاب ہے۔عاطف میاں کی رخصتی کے ساتھ ہی دو ماہرین اقتصادیات نے اظہار یکجہتی کے طور پر اس اقتصادی کونسل سے استعفیٰ دے دیا ہے۔یہ معمولی بات نہیں۔یہ صرف ایک مذہبی یا سماجی معاملہ نہیں‘ یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم جائزہ لیں کہ یہ کون سا ماہرین کا ٹولہ تھا جو ہم نے منتخب کیا تھا۔ان کا معاشیات میں کون سا دبستان فکر ہے۔ کیا ان کی سوچ اور فکر پاکستان کے لیے سود مند تھی۔کیا ان کا کوئی ایجنڈا تھا۔ میں ان کی حب الوطنی پر بھی شک نہیں کرنا‘ مگر جاننا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ اس ملک میں کس طرح کا نظام نافذ کرنا چاہتے تھے۔ عرض کر چکا ہوں کہ معاشیات کوئی دو جمع دو کی سائنس نہیں ہے۔ اس میں ایک ہی مسئلے کے حل کے لیے مختلف ماہرین کی مختلف رائے ہو سکتی ہے۔ جاننا چاہیے کہ ان لوگوں نے پاکستان کے مسائل کو کیسے سمجھا تھا اور یہ اس کا کون سا حل تجویز کرنا چاہتے تھے۔ میں تو قادیانی مسئلے کی بات ہی نہیں کر رہا‘ حالات ہماری تہذیب و سماج سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اس کی ہمارے ہاں کیا اہمیت ہے۔ میں تو صرف یہ بتا رہا ہوں کہ ماہرین معیشت کے طور پر یہ لوگ کیا چاہتے تھے۔ ذکر کیا تھا کہ ایم ایم احمد(مرزمظفر احمد)نامی ایک ماہر اقتصادیات کا تعلق اسی کمیونٹی سے تھا جس سے عاطف میاں کا ہے اور پاکستان ان موصوف کی اقتصادیات کا ڈسا ہوا ہے۔ یہ تو ہو گئے دو مسئلے‘ تیسرا مسئلہ بھی ہے۔ یہ ہے چین کے ساتھ ہمارے تعلقات‘ اوپر والی دونوں باتوں کا تعلق اس مسئلے سے بھی ہے۔ ہم تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں چند بنیادی فیصلے کرنا ہیں۔ امریکہ نے لال جھنڈی دکھا دی ہے۔ دھمکی آمیز انداز میں صاف کہہ دیاہے کہ ہمارے آپ سے کوئی مطالبات نہیں ہیں۔ اس نے بھارت سے سٹریٹجک معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ ایک طرح سے پرانے دفاعی معاہدوں کی نئی شکل ہے۔ سٹریٹجک اور تزوینی کا لفظ اب سکیورٹی کے پس منظر ہی میں استعمال ہوتا ہے۔ امریکہ نے بالکل بھارت کی زبان بولی ہے۔ بمبئی ہی نہیں پٹھان کوٹ اور اڑی کے ذمہ داروں کو سزا دو۔ گویا یہ کارروائیاں ہمارے ہاں سے ہوئی تھیں اور یہ کہ بھارت اور امریکہ مل کر دائود ابراہیم کو تلاش کریں گے۔ رہا افغانستان تو وہاں بھی امریکہ بھارت کا کردار نمایاں کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں ہم کہاں جائیں۔ اس کا ایک جواب صاف اور سیدھا ہے کہ اس خطے میں امریکہ کی یہ پالیسیاں پورے خطے کو چیلنج ہیں ‘خاص کر چین کے مقابلے میں ایک نئی قوت کھڑا کرنے کی کوشش ہے۔ چین اور روس اپنے اختلافات دور کر چکے ہیں یہاں ایک نیا بندوبست ابھر رہا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ چین نے کہا ہے کہ وہ پاکستان سے سٹریٹجک تعلقات بنانا چاہتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ ہم امریکہ یا مغرب سے لڑنا نہیں چاہتے۔ تاہم ٹرمپ کے امریکہ سے ہمیں کسی خیر کی توقع نہیں ہے۔ چین نے پہلی بار یہ اعلان کیا ہے کہ اگر کسی سٹریٹجک اتحاد کی ضرورت پڑے تو چین حاضر ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑا سہارا ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کا یہ اعلان غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ادھر بدقسمتی سے ہمارے ہاں سی پیک کے خلاف ایک پروپیگنڈہ شروع ہے۔ امریکی لابی اس سلسلے میں زوروں پر ہے۔ ہماری مسلح افواج بھی تاریخی طور پر امریکہ کے قریب رہی ہیں‘ تاہم اب ہماری دفاعی ضروریات کا بڑا حصہ چین کا مرہون منت ہے۔ ہمارے دفتر خارجہ میں بوجوہ ایسے افسران کی بہتات ہے جن کا رجحان امریکہ کی طرف ہے۔ ایسے میں حکومت پاکستان کے لیے یہ بہت نازک مرحلہ ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے دو تین باتیں بہت اہم کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس میں کوئی صداقت نہیں کہ چین پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی تعاون میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کا 47فیصد قرضہ صرف آئی ایم ایف اور ایشیائی ڈویلپمنٹ بنک کا ہے۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان کی شرح نمو میں 1.2فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ گزشتہ چار پانچ سال میں پاکستان میں جو ترقی ہوئی ہے‘ اس کی وجہ سی پیک ہے۔ اگر یہ ترقی 5.8فیصد بھی تصورکر لی جائے تو مطلب یہ ہے کہ سی پیک کے بغیر یہ ترقی صرف 3.6فیصد رہ جاتی ہے۔ نیٹ گروتھ ریٹ۔ ہمیں اپنی ترقی کی رفتار کو تین چار سال میں سات فیصد سے زیادہ کرنا ہے۔ مغرب کے معیشت دان یہ تھیوری لے کر آ رہے ہیں کہ ہمیں شرح نمو کو کم کرنا چاہیے۔ یہ سی پیک کے خلاف سازش ہے۔ ہماری نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے تو کہہ دیا تھا کہ ہم شرح نمو کو 6.7فیصد سے کم کر کے 5.5فیصد کریں گے۔ میں نے اس سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ بی بی یہ کرنے والی ہے۔ شرح نمو کم ہونے کا مطلب غربت اور مہنگائی میں اضافہ ہے۔ کیا ہم یہ برداشت کر سکتے ہیں۔ قرضے ہمیشہ برے نہیں ہوتے۔ یہ جو آج کل بات چل نکلی ہے کہ ہمارا ہر بچہ ایک لاکھ اور پتا نہیں کتنے ہزار کا مقروض پیدا ہوتا ہے تو کیا کسی نے اندازہ لگایا کہ امریکی بچہ کتنا مقروض پیدا ہوتا ہے۔ اس ملک پر 17.16ٹریلین ڈالر کا قرضہ ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں وہ امریکہ ہے‘ ہم پاکستان۔ درست ہے‘ مگر مثبت اور پیداواری مقاصد کے لیے قرض لینا غلط نہیں ہوا کرتا۔ اگر ہمیں بھاشا ڈیم کے لیے قرضہ لینا پڑے تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ یہ قرضہ تو شاید دو ایک سال میں پورا ہو جائے۔ نئی حکومت کو اس سے شرمانانہیں چاہیے۔ بھاشا کے لیے آپ کو کوئی قرض نہیں دے گا۔ وہ اسے متنازعہ کہیں گے۔ وہ تو سی پیک پر بھی یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ وہ متنازعہ علاقے سے گزرتا ہے۔ یہ اعتراض کسی کو اس وقت نہیں ہوا جب ایک عالمی معاہدے کے تحت منگلا ڈیم شہر کے علاقے میں بن رہا تھا۔ یہ سب سیاسی شگوفے ہیں۔ اس وقت مقصد سی پیک کو روکنا ہے۔ کل مشاہد حسین ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ رہے تھے‘ بھارت ہم سے دوستی کرنا چاہتا ہے ‘ مگر اس کی جو قیمت مانگ رہا ے‘ وہ ہم دے نہیں سکتے۔ پتا ہے یہ قیمت کیا ہے۔ یہ نہ کشمیر ہے نہ افغانستان۔ یہ قیمت سی پیک ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سی پیک چھوڑو ہم سے تجارت کرو ‘ بڑا فائدہ ہو گا۔ یہی وہ بات ہے جو امریکہ چاہتا ہے ہم نے امریکہ سے دوستی کر کے دیکھ لی ہے۔ دشمنی تو ہمیںاب بھی نہیں کرنا‘ مگر یہ اطمینان رکھنا ہے کہ کوئی طاقت ہمارے ساتھ ہے اور موجودہ عالمی اور علاقائی منظر نامے میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ یقینا چین کے لیے بھی پاکستان کی بڑی اہمیت ہے۔اس لیے اس کے وزیر خارجہ نے صاف کہا کہ وہ نئی حکومت سے تعلقات استوار کرنے کے لیے پاکستان آئے ہیں ہمیں امریکہ سے اعتماد کے ساتھ بات کرنا ہے کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ اس بات کا خیال رہے کہ پاکستان میں موجود مضبوط امریکی لابی پروپیگنڈہ مشنری کو تیز کئے ہوئے ہے۔ مجھے ان پر اعتبار نہیں ہے۔ یہ مشنری ہر ادارے میں ہے۔ وہ دلائل ایسے دیتے ہیں کہ دکھائی دیتا ہے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ایسا ہے نہیں۔ بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ عاطف میاں‘ بھاشا ڈیم اور چین سے تعلقات دراصل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ کیا حرج ہے اگر ہم ان پر ذرا تدبر سے غور کر لیں۔