ایک سو چوراسی ممالک نے کیوبا کے خلاف پابندیاں لگانے پر امریکہ کی مخالفت کی ہے۔ کیوبا پر پابندیاں لگانے کی قرارد داد پر انتیس دن لگاتار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ ہوتی رہی۔ چار ممالک نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔ تین غیر حاضر رہے۔ صرف امریکہ اور اسرائیل کے ووٹ قرار داد کے حق میں ڈالے گئے۔ کیوبا پر پابندیوں کے خلاف اس جم غفیر کی مخالفت بھی کار گر ثابت نہ ہوئی اور امریکہ نے اپنی خو پر قائم رہنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ چھہتر سال پہلے جب سان فرانسسکو کانفرنس میں اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی جارہی تھی تو اپنے استقبالیہ میں امریکی صدر ہینری ٹرومین نے کہا تھا : ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ طاقت ور ہونا اس بات کا لائسنس نہیں ہے کہ ہم جو چاہے کریں۔ نہ ہی کسی خاص مقام کے استحقاق کی جستجو ہمیں کسی دوسرے ملک کی مخالفت پر صف آرا کرے۔ جب تک ہم اس قیمت کو ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہونگے امن قائم کرنے والا کوئی بھی ادارہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا۔ یقینا یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ ‘‘ ایک طرف تو امریکہ کے فاونڈنگ فاردر اس قسم کی جمہوری سوچ کو اقوام متحدہ کی قیام کے لیے اہم سجھتے تھے دوسرے طرٖٖف اسی ملک کے لیڈر صرف ان بین الاقوامی اصولوں کو ماننے کو تیار ہیں جن میں انہیں فائدہ نظر آتا ہے۔ امریکہ چین کو تواسکے جنوبی سمندر پر دوسروں کو بلا روک ٹوک سفر کرنے کی اجازت دینے کی ہدایت کرتا ہے لیکں خود سمندر سے متعلق بین الاقوامی قوانین کو ماننے سے گریزاں ہے۔ اسی طرح آج تک امریکہ نے بین الاقوامی کرمینل کورٹ کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس نے تو ایک ایسا قانون بنا رکھا ہے جس کے تحت اس کی فوج اپنے کسی بھی باشندے کو جس کے بارے میں خطرہ ہو کہ اسے دوسرے کی مقامی عدالتوں میں پیش کیا جاسکتا ہے تشدد کے ذریعے نکال سکتی ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی امریکہ کا رویہ دوہرا ہے۔ افغانستان میں بیس سال امریکہ نے ایک ایسی حکومت کی پشت پناہی کی جس نے انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر دیں۔ عورتوں کو آزادانہ زندگی گزارنے اور الیکشن کی مشق کو یقینی بنانا ہی انسانی حقوق نہیں جن کا پرچار کیا جاتا ہے، انسانی حقوق کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کا عدالتی اور انتظامی نظام عدل اور فلاح کے اصولوں پر قائم ہو۔ اس وقت دنیا دو دھڑوں میں منقسم ہے۔ ایک وہ جو چین کی پشت پر کھڑے ہیں اور اس کی ‘‘Diplomacy Warrior Wolf’’ کے حامی ہیں۔ دوسرا گروہ امریکہ کی جمہوری اقدار کا قائل ہے اور اسکے کلب کا حصہ ہے۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ وہ 1945 میں اصولوں پر مبنی بنائے گئے بین الاقوامی لبرل نظام کے ماننے والے ہیں۔ اس نظام کی پہلی اینٹ اقوام متحدہ کی بنیاد کے ساتھ ہی رکھی گئی تھی۔ اکیسویں صدی کے پہلے پچاس سال مذہبی اور لسانی جنونیت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس دوران دو عالمی جنگیں لڑی گئیں۔ لا تعداد خانہ جنگیاں ہوئیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے، اور ظالمانہ آمریت نے کروڑوں انسانوں کو ملک بدر کیا۔ اقوام متحدہ کو بنانے کا مقصد دنیا میں امن کے قیام کو یقینی بنانا تھا۔ اس وقت کے لیڈر چاہتے تھے کہ اکیسویں صدی کے اگلے پچاس سال کسی خون ریزی کا شکار نہ ہوں جس کے لیے ضروری تھا کہ عالمی سطح پر دنیا کو ایک خاص طرز عمل کا پابند بنایا جائے تاکہ اس سے پیدا ہونے والا نظام یکجہتی اور عدل سے عبارت ہو۔ اس نظام کو گلوبل گورننس کا نام دیا گیا۔ بین الاقوامی تنظیم کے نتیجے میں ایک دنیا کی تعمیر متوقع تھی جس میں مذہبی اور ثقافتی اختلافات سے پیدا ہونے والے پر تشدد ماحول کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ جہاں ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد باہمی عزت ہو نہ کہ ڈر اور خوف۔ جہاں معاملات کا لین دین سب کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے کیا جائے۔ یہ ایک ایسی دنیا کا نقشہ تھا جہاں ایک چھوٹے ملک کو بھی ویسا ہی تحفظ میسر تھا جیسا کہ ایک سپر پاور کو۔ اس دنیا میں طاقت ور ملک اور کمزور ملک ایک دوسرے کے معاون ہوں تاکہ فائدے کی دوڑ میں کوئی دوسرے کو نیچا نہ دکھا سکے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے قائدین نے جس نظام کی بنیاد رکھی اسی کو تل پٹ کرنے پر خود امریکہ تلا ہوا ہے۔ پوری دنیا اس وقت کیوبا کے ساتھ کھڑی ہے لیکن امریکہ کی صف سب سے الگ ہے جہاں کسی بین الاقوامی اصول کی کوئی جگہ نہیں۔ جہاں اقدار کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ وہ امریکہ کے مزاج کے مطابق ہوں۔ امریکہ کے ناقدین کاماننا ہے کہ امریکہ صرف اسی بین الاقوامی اصول کی پاسداری کرتا ہے جو اس کے فائدے میں ہو۔ جب عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تو صورت حال بالکل ایسی ہی تھی۔ پوری دنیا عراق پر حملے کی مخالفت میں صف آرا تھی لیکن امریکہ نے اپنی روش نہ چھوڑی جس کے بعد پھر تمام مشرق وسطی میں نہ ختم ہونے والا جنگی سلسلہ شروع ہو گیا۔ جب ٹرومین امیر اور غریب، طاقت ور اور کمزور ممالک کو ایک ہی کڑی میں باندھنے کی خاطر تنظیم سازی کر رہا تھا تو وہ دراصل جمہوریت کی اس اکائی کی بنیاد رکھ رہا تھا جو تعصبات اور اونچ نیچ سے عاری سماج کی حمایت کرتی ہے۔ اگر اصولوں پر مبنی نظام بنانے کی خواہش ہے تو پھر اس نظام کی پیروی بھی کرنا ہوگی پھر چاہے وہ خود سپر پاور ہی کیوں نہ ہو۔