جولائی دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار میں آئے تین برس کا عرصہ ہونے کو ہے۔اس مُدت میں کئی موڑ ایسے آئے ،جہاں حکومت کو یہ ثابت کرنا تھا کہ اِن پر عوام کے اعتماد کافیصلہ دُرست تھا۔مگر حکومت یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ۔اس عرصہ میں حکومت عوام کے مسائل پر قابو پاتی، لیکن یہ اپنی توانائی اپنے لیے نئے مسائل پیدا کرنے پر صَرف کرتی پائی گئی ۔ ماضی کی حکومتیں عوامی مسائل سے پہلو تہی کرکے مخالفین کے محاسبہ پر زور دیتی رہیں ،موجودہ حکومت نے بھی اُسی روِش کو برقرار رکھا ۔گذشتہ حکومتوں کی طرح پی ٹی آئی کی حکومت بھی یہ سمجھتی ہے کہ وہ مخالفین کا احتساب کرکے ، درحقیقت عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے ،جبکہ ایسا نہیں ہے۔احتساب کی آڑ میں اپنی نااہلی کو چھپانا ہوتا ہے۔ حکومتی اقتدار کے ابتدائی سال میں اپوزیشن جماعتوںکی مساعی کے بغیر حکومت اپنی پالیسیوں کی بدولت مشکلات کا شکار ہوتی رہی۔ اسدعمر سے شوکت ترین تک وفاقی وزیرِ خزانہ کا یہ سفر حکومتی معاشی گرداب میں پھنسے ہونے پر دال ہے۔ شوکت ترین نے وفاقی وزیرِ خزانہ بننے سے ایک آدھ روز قبل ملکی معیشت پر جس تشویش کا اظہار کیا ،معاشی گرداب میں پھنسے ہونے کی ایک واضح مثال ہے۔ اُنھوں نے برملا کہا کہ ملکی معیشت کس سمت جارہی ہے ؟ مجھے کچھ معلوم نہیں ،جہاز کے کپتان کو مضبوط ہونا پڑے گا، ورنہ کشتی کو کھینا مشکل ہوجائے گا۔شوکت ترین کی تشویش سے سماجی حلقوں میں یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ نئے وزیرِ خزانہ اپنی تمام تر معاشی صلاحیتوں کے باوجود کیونکر توقعات پر پورا اُتریں گے؟اگرچہ اسد عمرنے جن حالات و واقعا ت میں یہ عہدہ سنبھالا تھا، وہ غیر معمولی حالات تھے،اُس وقت معاشی چیلنج مختلف قسم کا تھا،خیر!حالات تو اب بھی کوئی سازگار نہیں ،لیکن ہیجانی کیفیت کا معاملہ بھی نہیں ۔لیکن لمحۂ موجود میں مہنگائی کا چیلنج موجود ہے،شوکت ترین کا پہلا امتحان اس پر قابو پانا ہوگا۔جب تک مہنگائی پر قابو نہیں پایا جائے گا،عوام اِن پر اعتماد نہیں کریں گے۔ حکومتی اقتدار کا جب دوسرا سال اپنی نصف مُدت کو پہنچا تو کورونا وبا پھوٹ پڑی، حکومت نے اس وبا کے پہلے فیز کے دوران اپنی توجہ عوام کی جانب مبذول کی ،اس کا احساس جیسے ہی اپوزیشن جماعتوں کو ہوا، اُنھوں نے اس توجہ کو ہٹانا شروع کر دیا ، اس ضمن میں وباکے دوسرے فیز کے دوران پی ڈی ایم کا اتحاد تشکیل پاگیا۔اب جب وباکی تیسری لہر جاری ہے ،اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی حکومت کو اپنے پسندیدہ میدان میں ایک حد تک کھینچ لانے میں کامیاب ہوچکی ہیں،جہاں یہ حکومت کے ساتھ ایسا میچ کھیلنا چاہتی ہیں ،جو الیکشن تک جاری رہے ۔دوسری طرف پی ٹی آئی کا اندرونی خلفشار اپنی ہی حکومت کے خلاف کئی چیلنج پیدا کرچکا ہے ۔ جہانگیر ترین اور اُن کے لگ بھگ تیس ہم خیال ارکانِ اسمبلی،حکومت کو کھلی دھمکیاں دینے پر اُتر آئے ہیں۔آمدہ وقت میں جہانگیر ترین اور اِن کا گروپ جہاں کئی ’’رازوں‘‘سے پردہ اُٹھاسکتا ہے ،وہاں پی ٹی آئی کا اقتدار بھی سوالیہ نشان ٹھہرسکتا ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کو چند قریبی لوگوں نے یہ یقین دلانے میں بڑی محنت کی ہے کہ اس ملک کے کاروباری سیاست دان کرپٹ ہیں ،نیز یہ کہ حلقہ انتخاب ر کھنے والے تمام سینئرزسیاست دان، نئے چہروں کے سامنے وقعت کے حامل نہیں ، نیز اِن کی وفاداری بھی مشکوک ہے ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے ،پی ٹی آئی میں شامل سینئر ز سیاست دان پارٹی کے اندر اپنے لیے سپیس کو سکڑتا محسوس کررہے ہیں ۔ حکومت کے لگ بھگ تین برس کے اقتدار کی مُدت کا تجزیہ بتاتا ہے کہ عمران خان اپنا تاثٔر کھو چکے ہیں۔ عمران خان سے وابستہ اُمیدیں آہستہ بہ آہستہ دَم توڑ چکی ہیں۔عمران خان کے طرزِ حکومت میں نیا پَن کچھ نہیں ،یہ حکومت دوہزارآٹھ اور بعدازاں دوہزار تیرہ میں قائم ہونیوالی حکومتوں کا تسلسل محسوس ہوتی ہے ،اب تو لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ پچھلی دونوں حکومتیں عوام کو ریلیف دینے میں موجودہ حکومت سے بہتر تھیں۔کپتان کی ناکامی کا عالم دیکھیں کہ میچ آدھا ہوچکا ہے ،لیکن ٹیم میں تبدیلیاں جاری ہیں۔اگر فواد چودھری ،علی نواز اعوان،ملیکہ بخاری،عامر ڈوگر،فرخ حبیب ،عثمان ڈارحکومت کی ترجمانی کے لیے میڈیا پلیٹ فارم پر آنا بند کردیں تو عمران خان کا اعتماد جو کسی حد تک کمزورپڑ چکا ہے ،پوری طرح لڑکھڑا کر رہ جائے گا۔ مذکورہ ترجمانوں کا اعتماد ہی عمران خان کا اعتماد برقرار رکھ سکتا ہے۔ نوجوان سیاست دان علی نوازاعوان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان کا تاثر کمزور پڑچکا ہے،حکومت مہنگائی پر کنٹرول کرنے میں ناکامیاب رہی ہے،ڈسکہ الیکشن ہارنے کی ایک وجہ مہنگائی ہے،لیکن یہ پُراعتماد ہیں کہ حکومت اگلے الیکشن سے قبل عوام کو بھرپورریلیف دینے میں کامیاب ہو جائے گی اور یوں کھویا اعتماد بحال ہوجائے گا۔ علی نواز اعوان پورے خطہ کی سیاست کے تناظر میں پاکستان کی سیاست میں تیسری پارٹی کے وجود کو عام واقعہ نہیں گردانتے۔اِن کا یہ خیال دُرست ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی و جمہوری کلچر میں تیسری سیاسی قوت کا پیدا ہونا اور اقتدار کی راہ داریوں میں پہنچنا یہاں کے عوام کی سیاسی بیداری کا مظہر ہے۔عوام کی بڑی تعداد نے نئی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرکے موروثی اور روایتی سیاست دانوں کو اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور کیا۔ عمران خان نے مسلسل نوجوانوں کی بات کی ،سماجی وسیاسی سطح پر نوجوان متحرک ہوئے ،اس پہلو کو دیکھتے ہوئے پی ایم ایل این کے گزشتہ دورِ حکومت میں مریم نواز نے یوتھ پروگرام شروع کروائے اور سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو انگیج کرنا بھی شروع کردیا تھا۔ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے نووارد سیاست دان سیاسی عمل کا حصہ بن کر اس نظام کو طاقتور بنانے میںکامیاب تو ہوئے ہیں ،لیکن یہ اپنی حکومت کو کامیاب کر پائیں گے؟ ۔