اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ان جیسے آزاد منش صحافی نے، سرکاری ملازمت کیسے قبول کر لی؟ واقعی ع سِحر کیا، اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا لیکن اس کا جواب، دراصل نواز شریف کے پہلے دور ِحکومت سے وابستہ ہے۔ اس دور میں، ہر آزاد رو صحافی کی زندگی، اجیرن کر دی گئی تھی۔ ان بھائیوں کا ظرف تنقید کے ایک حرف سے آج بھی چھلک جاتا ہے، تو پچیس سال پہلے کا اندازہ لگائیے، جب ’’آتش جواں تھا‘‘! ریاستی مشینری کے کَل پْرزوں سے صحافیوں کی آواز دبانے، بلکہ گلے گھونٹنے کی جو کوششیںاس دور میں کی گئیں، مارشل لائوں میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ بڑے میاں نظریاتی ہو گئے ہیں۔ بہت خوب! نظریاتی بھی گویا چھو لگنی بیماری ہے، جو کسی کو بھی اور کسی بھی عمر میں لگ سکتی ہے! یہ خاکسار، اس نظریاتی ’’حادثے‘‘ کو تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ بشرطیکہ اپنے سابق ادوار کی ساری بے عنوانیوں کی قوم سے معافی مانگی جائے۔ تواتر سے کہا جاتا ہے کہ ماضی میں شریف برادران کو اسٹیبلشمنٹ استعمال کرتی رہی۔ مگر حتمی تجزیہ باور کرا دیتا ہے کہ دراصل یہ اسٹیبلشمنٹ کو استعمال کر رہے تھے! احسان فراموشی ایک چیز ہے اور اس کی تاویلیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ لیکن یہ ٹبر، محسن کْش ہے! یہ احسان فراموشی سے بہت آگے کی منزل ہے۔ بات سے بات نکلتی آ رہی ہے، لیکن یہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آزادی ِاظہار کے معاملے میں جنرل ضیا ء الحق کی عدم ِبرداشت کو ضرب المثل بنا دیا گیا ہے۔ مگر اس کا حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ ایک واقعہ سنیے۔ جنرل مرحوم کے دور میں اظہر صاحب کی بائی لائن سے ایک بڑی چْبھتی ہوئی خبر چھپی۔ اس پر جنرل صاحب نے، انہیں طلب کر لیا۔ حفظ ِما تقدم کے طور پر اپنے اخبار کے ایڈیٹر مجید نظامی مرحوم کو بھی ہمراہ لے گئے۔ جنرل صاحب کا دھیما مزاج اس دن چھٹی پر تھا۔ کمرے میںبلا کر اتنی اور ایسی ڈانٹ پلائی کہ بقول خوشنود علی خان، والد صاحب کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں میں زمین پر تھا یا ہوا میں! اس ’’آئو بھگت‘‘ کے بعد مرحوم نظامی صاحب نے انہیں شاباش دی اور دلجوئی کی خاطرایک چادر اور نیا قلم خرید کر دیا۔ ضیاء الحق مرحوم نے جو ڈانٹ ڈپٹ انہیں دفتر میں بلا کر رو برو کی تھی، اس کا فوری جواب دینا، اپنی شامت کو آواز دینا تھا۔ لیکن بقول خوشنود علی خان صاحب، اس کا انتقام انہوں نے بہاولپور حادثے کے بعد وہ دو تین سطری خبر دے کر لیا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ضیاء الحق کا جبڑہ فیصل مسجد کے پائیں میں دفن کر دیا گیا ہے۔ اس ذرا سی خبر نے یہ کام کیا کہ مدتوں بس اور ٹیکسی ڈرائیور، اس مقام کو جبڑہ چوک کِہ کر آواز لگاتے رہے۔ دوسری طرف جنرل صاحب کے معنوی فرزندوں نے ع اگر پدر نتواند، پسر تمام کندکے تحت، وہ وہ ہتھکنڈے بھی اختیار کیے گئے، جن سے جنرل مرحوم کو بھی اجتناب رہا۔ اس کی ایک مثال خفیہ ایجنسیوں کا استعمال ہے۔ بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر، آزاد صحافیوں کی خبر پاتے ہی چڑھ دوڑتے تھے۔ چودھری غلام حسین، شاہین صہبائی اور نصرت جاوید، یہ صاحبان بھی بڑی زیادتیوں کا نشانہ بنے۔ لیکن میاں بھائیوں کی خاص نظر ِکرم، اظہر صاحب پر تھی۔ بڑی وجہ اس کی یہ تھی کہ ہرچند اظہر صاحب کو شریفوں کے اشارے پر پہلے پریس کلب اور پھر ایک سے زیادہ دفعہ نوکری سے نکلوایا گیا۔ ’’اندر‘‘ کی زیادہ خبریں یہی دیا کرتے تھے۔ یہ منظر ہمارا آنکھوں دیکھا ہے کہ کابینہ کے اجلاس کی روداد سنانے ایک سے زیادہ وزیر ان سے ملنے چلے آئے۔ انہوں نے بھی اپنے ’’سورس‘‘ کبھی ظاہر نہیں کیے۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم سے اظہر صاحب کے بڑے دوستانہ تعلقات تھے۔ ستم گری کے اس عہد میں ملازمت سے انہیں بے روزگار کرنے کیلئے جس اخبار میں یہ کام کرتے تھے، اس کی روشنائی اور کاغذ تک روکے گئے۔ اس پر ’’تنگ آید بجنگ آید‘‘ کے مصداق اپنے اخبار کے مالک کی ملاقات، انہوں نے جنرل مرحوم سے کرا دی۔ لیکن چند روز بعد ہی نہایت صحتمند اور شاندار فوجی کا بڑے پراسرار حالات میں انتقال ہو گیا۔ دو چار دن بعد اخبار کے مالک نے بلا کر اپنی مشکلات از سر ِنو بیان کیں۔ یہ استعفیٰ دے کر گھر آ بیٹھے۔ لیکن ایک در بند کیا گیا، تو دوسرا کھل گیا۔ ستم ڈھانے والے کی اپنی جماعت کے ایم این اے اکبر علی بھٹی، دست گیری کو آگے بڑھے۔ درست ہے کہ ع آدمی زاد طْرفہ معجونی است کز فرشتہ سرشتہ وز حیوان اور اس طرح آتش یثربی کے قلمی نام سے، اکبر علی بھٹی کے روزنامہ پاکستان میں یہ چھَپنے لگے۔ اردو صحافت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی صحافی کے پورے پورے کالم اور تجزیے، ’’بقیہ‘‘ کے صفحے پر بڑے خفی طریقے سے شائع ہوئے۔ فتنوں کے اس دور کی کہانی ایجنسیوں کی حکومت نامی کتاب میں، انہوں نے بے کم و کاست بیان کر دی ہے۔ خدا خدا کر کے جور و ستم کا یہ دور ختم ہوا اور بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر ِاعظم بنیں۔ انہوں نے ایک سے زیادہ ملاقاتوں میں والد صاحب کو اے پی پی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کی پیشکش کی۔ یہ ہر بار طرح دیتے رہے۔ انہیں پرچانے کے لیے کہا گیا کہ یہ سیاسی عہدہ نہیںہے۔ فیض احمد فیض بھی اس ادارے کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ جواب ملا کہ ابھی کچھ دیر پہلے آپ نے سیبوں کی پلیٹ خود اٹھا کر میرے طرف بڑھائی۔ نوکری کرنے والے مرغ زریں بنے، پلیٹیں اٹھائے آپ کی خدمت میں موجود رہتے ہیں۔ بڑھتے بڑھتے بات تلخی تک پہنچ گئی اور بے نظیر نے کہا کہ یا آپ باقاعدہ طور پر ہمارے ساتھ آئیے اور یا خود کو ہم سے الگ سمجھیے۔ یہ بڑے خلجان کے دن تھے۔ اصولا یہ ’’تم روٹھے، ہم چھوٹے‘‘ کا مضمون ہونا چاہیے تھا۔ مگر جس نے چند ہفتے پہلے تک بدترین ریاستی جبر دیکھا ہو، وہ کب تک مزاحمت کرتا؟میرا خیال ہے کہ کچھ تو یہ دبائو اور زیادہ شریف اینڈ کو سے بدلہ لینے کا جذبہ یہ ملازمت قبول کروا گیا۔ مبارک باد کا پہلا فون سیکریٹری برائے اطلاعات حسین حقانی کا تھا۔ چھْوٹتے ہی بولے۔ غالب وظیفہ خوار ہو، دو شاہ کو دعا وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں خود اظہر صاحب نے اپنا اگلا کالم، غالب کے اس شعر سے آغاز کیا۔