درست کہا گیا ہے کہ ع زندگی کی دوسری کروٹ ہے موت میرے والد اظہر سہیل کا انتقال، اکیس برس پہلے، لندن میں ہوا تھا۔ یہ 12 اکتوبر کی رات تھی۔ گھنٹا بھر پہلے، وہ ہوش میں تھے۔ نیم بے ہوشی کے بعد بے ہوش ہوئے۔ اور پھر اسی حالت میں وفات ہو گئی۔ وہ جگر کے سرطان میں مبتلا تھے۔ اس کے مبتلا کا وزن، رفتہ رفتہ کم ہوتا جاتا ہے اور ہوش و حواس جاتے رہتے ہیں۔ طبیعت، پہلے جیسی بھی دھیمی یا باغ و بہار رہی ہو، آخر آخر چڑچڑا اور غصیل پن آ جاتا ہے۔ ہمارے لیے اس میں بڑی حیرت تھی۔ اس لیے کہ بیماری سے پہلے، وہ طبیعت نہایت شگفتہ رکھتے تھے۔ بات بات میں فقرے بازی، قدم قدم پر کوئی لطیفہ۔ اِس سے چْہلیں، اْس سے مذاق۔ اس لطافت کا چلے جانا ہی، ہمارے لیے بڑی تکلیف دِہ چیز تھی۔ لیکن ہونے والی بات، ہو کر رہتی ہے۔ ان کی عْمر، صرف اڑتالیس برس ہوئی۔ مغرب میں یہ جوانی اور ادھیڑ عمری کے درمیان کا زمانہ کہلاتا ہے۔ یہ اور اس کے بعد کی زندگی عموما، فراغت اور آسودہ حالی میں گزرتی ہے۔ لیکن یہاں ساری زندگی، وہی حال رہا کہ زمانے نے رکھا مجھے متصِل پراگندہ روزی، پراگندہ دِل والد صاحب کے اس مختصر عرصۂ حیات کا بڑا، اور عملی زندگی کا سارا دور، کوئے صحافت میں گزرا۔ ان کی صحافت کا آغاز، اٹھارہ سال کی عمر میں، آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان سے ہوا تھا۔ تیس برس کی مدت، تھوڑی نہیں ہوتی۔ ساری زندگی، صحافت ہی ان کا اوڑھنا اور بچھونا رہی۔ بجا طور پر وہ کہا کرتے تھے کہ یہی کچھ ہے ساقی متاع ِفقیر اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر تیس سال پہلے، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں، وہ ایف اے کے طالب ِعلم تھے۔ شورش کاشمیری، چٹان کے مدیر تو تھے ہی، شاعر، ادیب، انشا ء پرداز، خطیب، مقرر، لیڈر اور خدا جانے، کیا کیا تھے۔ شاعر اتنے قادر الکلام تھے کہ کہا کرتے تھے۔ میری طویل سے طویل نظم بھی، بارہ منٹ سے زیادہ میں تیار نہیں ہوئی۔ اس سے زیادہ وقت لگتا ہے، تو میں خیال ہی سے دست بردار ہو جاتا ہوں۔ بالبداہت پڑھنے کی بات اَور تھی۔ مگر کلام چھپنے سے پہلے، احتیاطا اپنے استاد احسان دانش کو ضرور دکھا لیا کرتے تھے۔ اصلاح کی اس میں کیا گنجائش ہوتی، ہاں، زبان و روزمرہ، احسان دانش ٹھیک کر دیا کرتے۔ ایک دفعہ اتفاق ایسا ہوا کہ کوئی نظم استاد کو دکھائے بغیر چھاپنا پڑی۔ اس پر اسلامیہ کالج کے طالب ِعلم نے، انہیں خط لکھ کر، دو تین غلطیوں کی طرف توجہ دلائی۔ چند ہفتے بعد، کسی تقریب کے سلسلے میں، شورش اسی کالج میں مدعو کیے گئے۔ ان کی تقریر کی باری آئی، تو پہلے پوچھا کہ تم میں اظہر سہیل کون ہے؟ دبلا پتلا، دبیز شیشوں کی عینک پہنے، ایک نوجوان آگے بڑھ آیا، جس کے چہرے بشرے سے، ذہانت کے آثار ہویدا تھے۔ شورش نے مائیک پر، اپنے مخصوص اور معروف خطیبانہ انداز میں کہا کہ مبارک ہے وہ کالج، جس کے اتنے کم عمر نوجوان، شورش کاشمیری کی اصلاح کرتے ہیں! اس کے بعد وہ انہیں چٹان میں لے آئے۔ اور اس طرح، ایک دور کا آغاز ہو گیا۔ اس زمانے میں، اظہر صاحب چٹان میں بھی لکھتے رہے اور نسیم حجازی کے کوہستان میں دو شعری قطعہ بھی۔ چٹان کے دنوں کا ایک اَور واقعہ یہ ہے کہ دفتر کی نچلی منزل میں، شام کو کلاسز پڑھائی جاتی تھیں۔ اظہر صاحب وہاں اردو پڑھانے لگے۔ ایک روز، لیکچر کے دوران، ایک لفظ پر اختلاف ہوا تو کسی طالب ِعلم نے اوپر آ کر شورش صاحب کو حَکَم بنانا چاہا۔ شورش نے اسے ٹوک کر پوچھا کہ اظہر سہیل وہاں موجود ہے؟ لڑکے کا جواب تھا کہ انہی سے تو اختلاف ہوا ہے۔ اس پر مرحوم نے کہا کہ جو وہ کہتا ہے، وہی درست ہو گا۔ وہ میرا بھی استاد ہے! یہ شورش کی عظمت اور خُرد نوازی تھی۔ ورنہ ان کا علم و فضل تو مسلم تھا۔ شورش مرحوم میں بہت سی خوبیاں تھیں، لیکن دو بڑی خرابیاں بھی تھیں۔ ایک ان کا غصہ اور دوسری درشت کلامی! اس درشتی کا نشانہ، ایسے ایسے لوگ بنتے رہے، جن کی شرافت میں، کسی نے کبھی شبہ نہیں کیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے وہ ایسے غالی معتقد تھے کہ اس باب میں، بڑی سے بڑی بے عنوانی کو بھی، روا رکھتے تھے۔ مولانا کی "بعد از وفات پیشین گوئیاں"، جن میں پاکستان کے ٹوٹ جانے کی "خبر" بھی شامل تھی، اسی قبیل کی شے ہے۔ مولانا ماہرالقادری نے، مولانا آزاد پر تنقید کی، تو شورش نے جوابا، ان کا حسبی تعلق، کہیں اور جا ملایا! خیر، شورش کی اسی درشتی سے عاجز آ کر، اظہر صاحب نے چٹان چھوڑ دیا۔ شورش نے مختلف واسطوں سے کہلایا کہ واپس آ جائو۔ لیکن جواب یہی ملا کہ از گوشہ ء بامی کہ پریدیم، پریدیم! کچھ عرصے بعد، پائوں کا چکر، انہیں لاہور سے اسلام آباد لے آیا اور پھر ان کی صحافت کے اس دور کا آغاز ہوا، جسے ع آفتاب آمد، مثال ِآفتاب سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ سَن بیاسی سے لے کر ستانوے تک کی صحافتی اور سیاسی تاریخ، اظہر صاحب کی کتابوں اور تذکرے کے بغیر، مکمل ہی نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اکثر بڑے واقعات کے، نہ صرف یہ راوی تھے، بلکہ عینی شاہد بھی! جنرل ضیاء الحق کا انہیں بلا کر سخت و سست کہنا، جبڑہ چوک کی بنیاد کیوں کر بنا۔ بے نظیر بھٹو سے "زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد" کی بحثیں۔ نواز شریف کی سارے سیاسی سیاسی کیرئر کو دو تین فقروں میں بیان کرنا۔ یہ سب ان شاء اللہ آگے آ رہا ہے۔۔ ع چل میرے خامے بسم اللہ