اخبارات اور چینلوں کے حوالے سے یہ شکایت عام ہے کہ میڈیا جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کو پھیلانے کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے میڈیا کا اعتبار اور وقار پہلے جیسا نہیں رہا۔ ایک زمانہ تھا کہ اخبار میں کسی خبر کا چھپ جانا ہی کافی تھا۔ اس کی صداقت پر شک و شبہ کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ اب معاملہ برعکس ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ جو میڈیا کے اندرونی نظام اور معاملات سے ذرا بھی واقف ہے، اچھی طرح جانتا اور یہ یقین رکھتا ہے کہ اب معروضیت، غیرجانبداری اور سچائی وغیرہ محض خوش نما لفظ ہیں۔ ہر چند کہ ان لفظوں کا استعمال خبروں کے مستند ہونے ہی کے حوالے سے کیا جاتا ہے لیکن یہ سب ماضی کی بھولی بسری باتیں ہیں۔ اب خبریں مخصوص مقاصد کیلئے بھی چھاپی جاتی ہیں، واقعات کو خبروں میں توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے، واقعے کے کسے پہلو کو جان بوجھ کرنمایاں کیا جاتا ہے اور کسی پہلو کو دبایا جاتا ہے۔ کسی ایشو پر لوگوں کا ردعمل جاننے کیلئے من گھڑت خبریں بھی چلائی جاتی ہیں۔ ایسی خبروں کی اشاعت کے عوض وہ محنتانہ بھی وصول کیا جاتا ہے جسے عرف عام میں لفافہ جرنلزم کہتے ہیں۔ ظاہر ہے جب لکھے پڑھے طبقے میں میڈیا کے حوالے سے اس قسم کا گمان رکھا جائے گا تو وہ چیز متاثر ہو گی جسے انگریزی میں Credibility کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ ساکھ کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی اخبار یا چینل اس ساکھ پر کھڑا ہوتا ہے جب اخبار کی یہ ساکھ مجروح ہو جاتی ہے تو پڑھنے والے اور چینلوں کے دیکھنے والے یہی تبصرہ کرتے ہیں ارے صاحب ان کا کیا اعتبار، جھوٹ پھیلانے کا کارخانہ ہیں۔ ایسا کہنے اور سمجھنے والے بھی جانتے ہیں کہ اخبار یا میڈیا سچی اور درست خبروں کی نشر و اشاعت بھی کرتے ہیں بلکہ ان کی پچانوے اٹھانوے فیصدی خبریں واقعاتی اعتبار سے مبنی بر حقیقت ہوتی ہیں۔ کوئی پوچھنا چاہے تو سوال کر سکتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر دو ایک خبروں کے بے بنیاد ہونے یا ان میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے پورے اخبار کو جھوٹا یا افواہ طراز کیسے کہا جا سکتا ہے۔ اصل میں قلم یا کاغذ یا کیمرے و اسکرین کا سارا کاروبار، یہ سارا افسانہ سچائی وصداقت سے جڑا ہے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ سچائی آدھی یا پونے نہیں پوری سچائی ہوتی ہے۔ اخبار یا چینل کا تصور خبروں کے حوالے سے مکمل سچائی کا ہے۔ اخبار یا چینل جتنی خبریں بھی چھاپے یا نشر کرے گا اس میں جھوٹ کا ادنیٰ سا عنصر بھی شامل نہیں ہو گا۔ سچ میں جھوٹ کی ذرا سی بھی آمیزش پورے سچ کو مشتبہ بنا دیتی ہے۔ اس لئے سچ کی اشاعت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ رپورٹر کو کوئی اطلاع ملے تو وہ ایک سے زائد ذرائع سے اس کی تصدیق کر لے تاکہ جو کچھ بھی چھپے وہ مصدقہ ہو اور اس کی تردید کا اندیشہ نہ رہے۔ رپورٹر یا اخبار نویس کی مشکل یا مجبوری کہہ لیں، یہ ہے کہ اکثر صورتوں میں اس کے پاس خبر کی صداقت کی جانچ پڑتال کی مہلت یا وقت نہیں ہوتا۔ اسی لئے صحافت کو واقعے کے فوری دباؤ کے تحت لکھا گیا ادب بھی کہا گیا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ ایسی خبر جس سے کسی کی شہرت و نیک نامی پر بٹہ لگنے کا اندیشہ ہو، وہ اسے اشاعت سے روک لے، جب تک اطلاع یا واقعے کی تصدیق نہ ہو جائے۔ اب پریشانی کا پہلو یہ ہے کہ رپورٹر کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر بعد میں خبر سچ ثابت ہوئی اور اسے اس کے حریف رپورٹر نے اپنے اخبار میں شائع کر دیا تو اس کی جواب دہی نہ ہو جائے اور نہ بھی ہو تو خبر ’’مس‘‘ ہو جانے کا قلق ایسا ہوتا ہے جس کی تلافی نہیں کی جا سکتی۔ ذہن میں رہے کہ یہ ساری بحث اس پس منظر میں ہے کہ رپورٹر ایماندار، باکردار اور رپورٹنگ کے اخلاقی و قانونی آداب سے واقف ہو کر رپورٹنگ پر مامور ہو۔ ایسے رپورٹر جو اخبار کو غیر صحافتی مقاصد اور ذاتی فائدوں کیلئے استعمال کرنے میںکوئی مضائقہ نہیں سمجھتے، انہیں تو پیشے میں نقاب اوڑھ کر جانے والی کالی بھیڑیں ہی کہا جائے گا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں صحافت کی تاریخ بتاتی ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں کی صحافت پر ایسا ہی عبوری دور نہ گزرا ہو۔ امریکا میں بنجامن فرینکلن نے صحافت کی آزادی کی لڑائی لڑی اور جب صحافت آزاد ہو گئی اور جذبہ آزادی سے بے قابو و بے لگام ہو کر وہاں کے اخبارات نے جھوٹ اور افواہ سازی پر مبنی خبریں چھاپنی شروع کیں تو اسی بنجامن فرینکلن نے لکھا کہ امریکی اخبارات میں جو کچھ چھپتا ہے وہ جھوٹ ہے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن رفتہ رفتہ اس صورتحال کے خلاف معاشرتی ردعمل پیدا ہوا، اخبارات نے اپنی اصلاح کی اور پھر ان ہی اخباروں نے معاشرے سے ناخواندگی دور کرنے کیلئے باقاعدہ مہم چلائی، یہاں تک کہ تعلیم کی شرح میں اضافے کیلئے اسکول تک کھولے جس میں تعلیم بالغاں کی کلاسیں شروع کی گئیں۔ ایسا انہوں نے اپنے کاروباری مفاد میں کیا کہ شرح تعلیم میں اضافہ ہو گا تو اخبار پڑھنے والے سامنے آئیں گے اور اس کی اشاعت میں اضافہ ہو گا۔ اخبارات نے جب دیکھا کہ اخبار عوام کی قوت خرید سے باہر ہو گئے ہیں تو انہوں نے اپنی قیمتیں گھٹا کر ایک پینی کر دی۔ یہ دور پینی پریس کا دور کہلاتا ہے۔ برسبیل تذکرہ امریکی اخبارات کے اسی تجربے سے متاثر ہو کر لاہور کے مولوی محبوب عالم نے اپنے اخبار کا نام ’’پیسہ اخبار‘‘ رکھ دیا جو ایک پیسے میں بکتا تھا۔ نتیجے میںاخبار دیکھتے ہی دیکھتے اردو کا سب سے زیادہ بکنے والا اخبار بن گیا جس کی اشاعت بارہ سے پندرہ ہزار یومیہ تھی اسی زمانے کے لحاظ سے یہ حیرت انگیز اشاعت تھی کہ خواندگی کا تناسب امریکی معاشرے سے بھی کم تھا۔ اس واقعے کی ایک ڈیڑھ صدی گزر جانے کے باوجود آج ہمارے کتنے اردو یا انگریزی اخبار ہیں جن کی اشاعت پندرہ ہزار ہے؟ اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے اخبارات کا سفر آگے کی جانب ہے یا اخبارات کی اشاعت گر رہی ہے یا اپنی جگہ رکی ہوئی ہے۔ معاشرے اور نئی نسل کی دلچسپی الیکٹرونک اور نیو میڈیا کی وجہ سے چھپے ہوئے لفظ سے مفقود ہوئی ہے، اخباروں اور رسالوں کا بلکہ کتابوں کا مستقبل بھی خطرات سے دوچار ہے۔ مگر یہ الگ بحث ہے جس پر ان کالموں میں اظہار خیال کیا جا چکا ہے۔ سوچنے کا پہلو یقیناً یہ بھی ہے کہ ایک طرف اخبارات کی ترقی و توسیع پر جمود طاری ہے، دوسری طرف ان کی ساکھ اور اعتبار گھٹتا جاتا ہے تو کیا یہ ذمہ داری اخباری مالکان، مدیران اور صحافیوں کی انجمنوں پر عائد نہیں ہوتی کہ وہ اخبارات اور مطبوعہ صحافت کو درپیش بحرانوں پر غور کریں اور ان کے اسباب تلاش کرکے ان کے تدارک کی فکر کریں۔ گر ایسا نہیں ہو رہا تو کیا عجب کہ بے نیازی و بے التفاتی کا یہ رویہ بھی اسی زوال و انحطاط کا ایک مظہر ہو جو ہمارے معاشرے ہی نہیں، اس پورے خطے پر چھائی ہوئی ہے اور جو تقاضا کرتی ہے کہ ٹھہری ہوئی اس جھیل میں کوئی ایک ایسا بھاری پتھر لڑھکایا جائے جو سطح آب پر ایک تلاطم پیدا کر دے۔ ٹھہرا ہوا پانی سڑ جاتا ہے اور بہتے ہوئے پانی میں زندگی کی حرکت بھی ہوتی ہے اور حسن بھی۔ کیا آپ کو اپنے اردگرد سڑاند کی بُو محسوس نہیں ہوتی؟