مولانا رومی صاحب دل تھے اور صاحب حکمت بھی! ان کے پیغام پر توجہ کرنے کے بجائے، لفظوں میں اْلجھا گیا، تو فرمایا من ندانم فاعلاتْن فاعلات شعر می گویم، بِہ از آب ِحیات (شعر کے اوزان اور بحریں وغیرہ، دوسرے بہتر جانتے ہوں گے۔ میرے شعر تاثیر، البتہ آب ِحیات سے بھی بہتر رکھتے ہیں)۔ ایک اَور جگہ کہتے ہیں در نیابد حال ِپختہ ہیچ خام پس سخن کوتاہ باید، والسلام گویا وہی بات، جو ریاض خیر آبادی نے مولانا عبدالسلام کی تنقید پر کہی تھی سمجھے بخوب ہی، میرے مْہمل کلام کو پہنچے سلام دْور سے عبدالسلام کو! کسی دوسری حکایت میں ارشاد ہوا۔ درحق ِاْو مدح و در حّق ِتو ذَم در حق ِاْو شہد و در حّق ِتو سَم یعنی "کوئی شے، مْمکن ہے کہ ایک کے لیے بھَلی اور کسی دوسرے کے لیے بْری ہو۔ پہلے پر شہد اور دوسرے پر زہر کا اثر کرے!"۔ دنیا کا حال یہ ہے کہ آنکھیں اور دماغ بند کر کے، صرف ایک راہ پکڑ لی اور ساری مشکلات کا حل، اسی کو فرض کر لیا گیا۔ مگر دوا یکی ست بدارالشفائی ِمیکدہ ہا ز ہَر مرض کہ بنالد کَسی، شراب دہند (مے کدے میں ایک ہی دوا ہے، سو ہر مرض کا علاج، شراب سے کیا جاتا ہے)کا فارمولا، کامیاب کبھی نہیں ہو سکتا۔ حاذق طبیب، بظاہر ایک جیسی علامات پر بھی، ہمیشہ تو ایک سی دوا نہیں دیتا! مسلمانوں کے درپیش، دوراہا نہیں سہ راہا ہے! پہلا راستہ تقلید ِمغرب کا ہے۔ اس پر چَل کر فائدہ کم اور نقصان زیادہ اْٹھایا گیا۔ ماں ٹینی اور باپ کْلنگ بچے نکلے رنگ برنگ کی شکل میںہمارے سامنے آتا رہا ہے! دوسری راہ وہی ہے، جسے "پدرم سلطان بْود" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اپنے بڑوں کے ہر کام پر سَر دْھنتے رہنا۔ اتنی سی بات بھْلا کر کہ ع میراث ِپدر خواہی، علم ِ پدر آموز (باپ کا صحیح وارث، اس کے گْنوں کو اپناتا ہے)، خود کو بھی تیس مار خان سمجھنا۔ مسلمان بادشاہوں کے غیر مستحسن اقدامات کی بھی، تاویلیں کرتے رہنا۔ آخرت میں تو خیر، دنیا میں بھی کامیابی کا ضامن، برائے نام مسلمان ہونے کو سمجھنا۔ پچھلے سو دو سو برس کی تاریخ میں، اکثر شکستیں، اس وجہ سے بھی ہوئی ہیں۔ یہ ترنگ، کتنی بڑھ گئی تھی، اس کی دو مثالیں کسی تحریر میں مولانا ابوالکلام آزاد نے دی ہیں۔ نپولین جب مصر پر حملہ آور ہوا ہے تو مصری فرماں روا نے جامعہ ازہر کے علماء سے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ علماء نے یک زبان ہو کر کہا کہ فلاں ختم شروع کرایا جائے کہ ہر طرح سے دافع ِبلیّات ہے! ادھر ختم پورا نہیں ہوا تھا کہ نپولین نے اس حکومت کا خاتمہ کر دیا! جس بخارا کی تہذیب کو ہم آج بھی یاد کرتے ہیں، روسیوں نے اس کا محاصرہ، تقریباً دو سو سال پہلے کیا تھا۔ جواباً، امیر ِبخارا نے حکم جاری کر دیا کہ تمام مسجدوں، خانقاہوں اور مدرسوں میں فلاں ختم، فوری طور پر پڑھا جائے۔ بقول ِابوالکلام، اس جنگ کا بھی انجام وہی ہوا جو کسی ایسی لڑائی کا ہو سکتا تھا، جس کے ایک طرف توپیں اور گولہ بارود تھے اور دوسری طرف ختم کی تیاریاں! سوچنے کی بات ہے کہ یہ حکمران، اگر سیدھی صراط پر چلے تھے، تو یہ دن کاہے کو دیکھنا پڑے؟ خْدا نے مسلمانوں سے آخرت کا ہی نہیں، دنیا میں بھی نصرت اور کامیابی کا وعدہ کیا ہے۔ دراصل یہ ناکامی ہی، ثبوت ہے اس بات کا کہ رستہ ٹھیک نہیں تھا! تقلید کے یہ دونوں ہی راستے، کھائی میں گرانے والے ہیں۔ پہلا، خوشنما اور جاذب ِنظر زیادہ ہے۔ دوسرا، سراسر خود فریبی اور جذباتیت کا ہے۔ مگر ایک تیسری سبیل بھی ہے۔ جسے پانے والے، گْمراہ کبھی نہیں ہو سکتے۔ یہ اعتدال اور توازن کی راہ ہے اور تجزیے اور غور و فکر کی طالب ہے۔ جی ہاں! ان چیزوں کی طالب، جن کو ہر دو پہلے مسافروں نے، تقریباً نظر انداز کر رکھا ہے۔ اس پر چلنے والوں کو، اچھائیوں میں تو مغرب کی تقلید کرنی چاہیے، مگر بْرائیوں میں تردید! مثلاً، مغرب نے جانوروں کے بھی حقوق متعین کر دیے ہیں۔ لیکن طْرفہ دیکھیے کہ کارپوریشنوں کو بھی، انسانوںکی طرح ذی روح قرار دے دیا گیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ظلم و ستم کا، یہودیوں پر بھی پہاڑ ٹْوٹا تھا۔ لیکن ان کے ساتھ امتیازی سلوک کو، اب دوسری انتہا پر پہنچا دیا گیا ہے! مسلمانوں کے خْون کی البتہ کوئی قیمت نہیں۔ مغرب کا حال گہی بر طارم ِاعلٰی نشینم گہی، بر پْشت ِپای ِخود نبینم (کبھی تو نہایت بْلندی پر جا پہنچتا ہوں، اور کبھی اپنی پْشت ِپا دیکھنے سے بھی قاصر رہتا ہوں!) کا سا ہے! اسی طرح، وہ جو کسی اْستاد نے کہا ہے کہ بہشت آنجا کہ آزاری نباشد کَسی را با کَسی، کاری نباشد (جنت اسے کہتے ہیں، جہاں نہ کسی کو آزار پہنچے اور نہ ایک کو دوسرے سے کوئی غرض ہو)یہ صرف جنت میں ہی ممکن ہے کہ ایک دوسرے کے معاملات سے الگ رہ کر بھی، خوش رہا جائے! اِس جہان میں تو آدمی ہی آدمی کا دارو ہے! مغرب کی یہ روش بھی، ٹھکرا دینے کے لائق ہے۔ اپنے اکابرین کی بھی، صرف خوبیاں لی جانی چاہیئیں اور خامیوں سے، پرہیز لازم ہے۔ ہر وہ قصہ، جو "ایک نیک دل بادشاہ’’ سے ہی کیوں نہ شروع ہوا ہو، یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ نیک دل تھا، تو بادشاہ کیوں تھا، رعایا میں کیوں نہ آ ملا؟ لیکن ٹھہریے! تاریخ کے اس موڑ پر، دنیا کو دیکھنے کا، یہ انداز ہی غلط ہے! دنیا کا تباہ ہونا جب مقدر ہے، تو پھر یہ تباہی کی طرف کیونکر نہ جائے؟ بلکہ مکمل تصویر دیکھنے کے لیے، تصور میں اس کی تباہی دیکھیے اور اْلٹے قدموں پلٹتے آئیے۔ مطلب یہ کہ ع اْلٹا دیکھو گے، تو پھر سیدھا دکھائی دے گا حکمت کی ہزار کتابوںکا نچوڑ، اس ایک مصرع میں اْتر آیا ہے۔ ع خوب ہوتی، تو دنیا کیوں ہوتی؟