وزیر اعظم جناب عمران خان کے،، کامیاب ترین،، دورہ واشنگٹن کے بعد پتہ نہیں کیوں مجھے پرویز مشرف کے دور کا وہ سنسنی خیز واقعہ یاد آ گیا جب ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدلقدیر خان کو جبری طور پر پاکستان ٹیلی ویژن کی عمارت میں لے جایا گیا تھا، انہیں لکڑی کی ایک کرسی پر بٹھایا گیا، ان کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھمایا گیا تھا، انہیں حکم تھا کہ اس پر جو لکھا ہے وہ انہوں نے کیمروں کے سامنے بولنا ہے، پھر کیمرے آن ہوتے ہیں پی ٹی وی کا اسٹوڈیو روشنیوں سے منور ہوجاتا ہے اور ہمارے ایٹمی سائنس دان پوری دنیا کے سامنے اپنے’’جرائم کا اعتراف‘‘ کرتے ہیں، کئی سال گزر گئے اس واقعہ کو ، جب بھی اس دن کو یاد کرتا ہوں خوفزدہ ہوجاتا ہوں، یہ میری پوری زندگی کا پہلا واقعہ تھا جس نے مجھے خوف میں مبتلا کیا یہ خوف آج بھی مجھ پر طاری ہے، اس حوالے سے کئی سوالات آج تک میرے دماغ میں گردش کر رہے ہیں، کیا ڈاکٹر قدیر خان کوئی انفرادی چوری کر رہے تھے؟ کیا انہوں نے اس ’’ جرم‘‘کے نتیجے میں ڈالرز کمائے؟ کیا بیرونی ممالک میں ان کے بنک اکائونٹس اور جائیدادیں موجود تھیںِ ِ اپنے ہی وطن عزیز میں وہ کتنی پر تعیش زندگی بسر کر رہے تھے؟ ان کی اولاد اور خاندان معاشی طور پر مضبوط ہے؟ کیا ایٹمی ٹیکنالوجی دوسرے ممالک کو ٹرانسفر کرنے کے لئے انہوں نے کوئی، نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا؟ اگر ایسا تھا تو اس نیٹ ورک کے تار کہاں کہاں ملے ہوئے تھے؟ پاکستانی عوام آج تک بے شمار ایسے کئی سوالات میں اٹکے ہوئے ہیں، لوگوں کو خدشہ ہے کہ ہم نے کہیں اپنے ایٹمی سائنس دان کو سامراجیت کی انا کی سولی تو نہیں چڑھا دیا تھا؟ سرکاری ٹی وی پر ڈاکٹر قدیر خان سے لکھا ہوا اقبالی بیان لینے کے بعد پھر کبھی اس ’’کہانی‘‘ کا کوئی سرکاری فالواپ سامنے نہیں آیا، لوگ صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ ابھی تک مکمل آزاد شہری کی زندگی نہیں گزار رہے،ان پر پابندیاں ہیں جو شاید قبر تک ساتھ چلیں۔۔۔۔۔۔ ایسا کیوں کیا گیا تھا؟ عمران خان نہ صرف خود ایک بولڈ اور کلین آدمی ہیں بلکہ ان کی ملک اور قوم کے لئے پالیسیاں بھی پچھلی حکومتوں سے مختلف نظر آتی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ،، اعترافات،، کی اصل کہانی سامنے لانی چاہئے تاکہ قوم مطمئن ہو سکے۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہو سکے تو ایک کام اور کر دیا جائے اور وہ یہ کہ اگر اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی سے پاکستان کی ایک سیکیورٹی ایجنسی نے امریکہ کو آگاہ کیا تھا تو اس کے سیاق و سباق بھی ہوں گے، اسامہ بن لادن کی ایک طویل عرصہ تک نگرانی بھی کی جاتی رہی ہوگی، اس حوالے سے پاکستانیوں کے پاس جتنی بھی معلومات ہیں وہ مغربی ذرائع ابلاغ سے حاصل کردہ ہیں، کتنا ہی اچھا ہوجائے کہ سرکاری طور پر ایک وائٹ پیپر شائع کر دیا جائے ،جس میں ساری تفاصیل موجود ہوں کہ اسامہ بن لادن کب مستقل طور پر پاکستان میں درجنوں بیویوں اور خاندان کے لاتعداد افراد کے ہمراہ آباد ہوا؟ وہ یہاں بیٹھ کر کیا کیا کرتا رہا، اسے پاکستان کے اندر کس کس کی آشیرباد حاصل رہی؟ اور پھر وہ کیا حالات تھے کہ امریکہ کے سامنے اس کی مخبری کرنا پڑی؟ یہ پچھلی صدی کے تاریک ترین حقائق ہیں، جنہوں نے پاکستان کو صدیوں پیچھے دھکیل دیا، دنیا نے ہم پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا، دنیا نے پاکستان کے ہر شہری کو اسامہ بن لادن تصور کر لیا، پاکستانی پاسپورٹ ایک گالی بن کر رہ گیا، ہم نام نہاد مہذب دنیا میں دہشت گرد گردانے گئے، اور یہ سب صلہ ملا ہمیں افغان جنگ میں امریکہ کی مدد کرنے کا، ہم آج بھی بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں، دنیا کے جس ’’ محسن اعظم‘‘ نے پاکستانیت کو داغ دار کیا تو ’’ ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے نہیں تھک رہا، دنیا میں گویا ایک ہی ملک ہے جس کا نام ہے پاکستان اور’’ دنیا کو چلانے والا‘‘ اس سے مطمئن ہی نہیں ہے،میں نہیں سمجھتا کہ وزیر اعظم عمران خان کے ’’ کامیاب ترین‘‘ دورہ واشنگٹن کے بعد اسلام آباد کو’’ معصومیت کی کلین چٹ‘‘ دے دی گئی ہے، پاکستان کو بہت ساری نئی چٹیں تھمائی گئی ہیں جن پر بہت ساری نئی ڈیوٹیاں لکھ دی گئی ہیں، ہمارے اعترافات ہمیں کسی دلدل سے شاید نہ نکال سکیں، وعدہ معاف گواہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ پھانسی سے بچ جائیں، کبھی کبھی بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کی طرح بھٹو کی پھانسی کے بعد ایسے وعدہ معاف گواہوں کو بھی اگلے دن سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے ٭٭٭٭٭ (اور اب ایک ایسے جرم کا اعتراف جو مجھ سے سر زد ہوا، جس پر آج تک نادم ہوں) نعیم ہاشمی صاحب کی پہلی برسی کی تقریب ہم نے خالی جیب ہونے کے باوجود واپڈا ہاوس کے قریب فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقد کرنے کا اہتمام کیا، اداکار محمد علی مر حوم نے مشروب بنانے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے کنٹری مینجر زمان خان سے پانچ ہزار روپے کی اسپانسر شپ دلا دی تھی ۔چالیس سال پہلے یہ رقم ایک عالی شان تقریب کے انعقاد کے لئے بہت کافی تھی ۔یہ تقریب محترمہ خدیجہ مستور کی زیر صدارت منعقد کی گئی ۔ہاشمی صاحب کی دوسری برسی آئی تو سوچا اسے پہلی برسی سے بھی زیادہ یادگار بنا دیا جائے۔ دوسری برسی کی تقریب کا اہتمام مال روڈ کے دوسرے فائیو اسٹار ہوٹل میں کیا گیا۔ اس بار بھی ہوٹل کے اخراجات کا انتظام ہو ہی گیا۔ دوسری تقریب کی صدارت کون کریگا؟ یہ بات مسئلہ بنی ہوئی تھی، نعیم ہاشمی میموریل کونسل کے صدر پروفیسر اعجاز الحسن سمیت سب کا فیصلہ تھا کہ ہماری کسی تقریب میں سرکاری یا حکومتی شخصیت کو مدعو نہیں کیا جائے گا۔ میرے دماغ میں احمد فراز صاحب کا نام گونجا تو سب نے اس پر اتفاق کر لیا۔ میں نے کشور ناہید صاحبہ سے بات کی تو اگلے دن انہوں نے بتایا کہ فراز صاحب تو آجائیں گے ، لیکن اسلام آباد سے لاہور کا دوطرفہ ہوائی جہاز کا ٹکٹ آپ کو دینا پڑے گا، میں نے بلا سوچے سمجھے ہاں کردی۔ ہوائی جہاز کا ٹکٹ کیسے پرچیز کیا جائے؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہ تھا، ہمارے تنظیمی ساتھی نثار عباس نے بالآخر ہم سب کے مشترکہ چاچا حفیظ کو یکطرفہ ٹکٹ دینے پر آمادہ کر لیا، احمد فراز صاحب کو اسلام آباد واپس کیسے بھجوانا ہے؟ سب نے کہا کہ تقریب کے بعد دیکھ لیا جائے گا 27 اپریل کو تقریب کے انعقاد کا دن آ گیا، بابرہ شریف، فاخرہ شریف، محمد علی، زیبا، نجمہ ،نشو، آسیہ، انجمن، حسن عسکری، اسلم ڈار، مہناز، اے حمید، مہدی حسن، سنتوش کمار کے چھوٹے بھائی منصور، قتیل شفائی، منیر نیازی، امروزیہ، پرویز صالح، نینا،اعجاز الحسن، غلام محی الدین،حسن رضا خان ،اے نئیر، غلام عباس، مسرور انور، کلیم عثمانی، الیاس کاشمیری، سید عطاء اللہ شاہ ہاشمی،نصرت ٹھاکر، یاور حیات، شیخ اقبال ، اجمل خان اور مصطفی قریشی سمیت تمام مہمان پہنچ چکے تھے ، یہ بہت ساری مہمان ایکٹرسوں کے عروج اور شباب کے دن تھے، سب پریوں کے دیس سے آئی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں، اچانک کرکٹر ظہیر عباس نے ہال میں آ کر REQUEST کی کہ کرکٹ ٹیم اسی ہوٹل میں ٹھہری ہوئی ہے اور وہ سب تقریب میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ کرکٹ ٹیم کے لئے علیحدہ کرسیاں لگوا دی گئیں اور پھر جناب احمد فراز کی صدارت میں یہ تقریب شروع ہو گئی، تقریب میں کوئی ایک بھی غیر ضروری آدمی موجود نہ تھا، میڈیا نے اس تقریب کو اپنی نوعیت کی پہلی منفرد تقریب قرار دیا،اگلا دن تو تقریب کی کامیابی کے نشے میں گزر گیا، لیکن تیسرا دن بہت مشکل دن بن گیا، کشور ناہید احمد فراز صاحب کیلئے اسلام آباد واپسی کا ائیر ٹکٹ مانگ رہی تھیں اور ہم میں سے کوئی اس کا بندوبست کرنے کے قابل نہ تھا، سب سوچ رہے تھے کہ بڑے نام والا شاعر ہے، کسی طور واپس چلا ہی جائے گا، احمد فراز ٹکٹ کی آس میں چار دن لاہور میں ڈیرے ڈالے بیٹھے رہے اور پھر خود ہی کوئی انتظام کرکے واپس لوٹ گئے۔ اس واقعہ کو میں اپنی زندگی کا ایک جرم تصور کرتا ہوں اور نادم رہتا ہوں۔ احمد فراز صاحب سے بعد میں بہت دوستی بھی ہو گئی تھی، انہوں نے ضیاء الحق دور میں تحریک آزادی صحافت میں ہمارا عملی طور پر ساتھ دیا اور اپنی سرکاری نوکری کو دائو پر بھی لگایا۔