اخلاقی گراوٹ اور عمومی انحطاط کا سلسلہ تو صدیوں سے جاری ہے لیکن گزشتہ چند عشروںسے اس میں غیر معمولی تیزی آئی ہے۔قومیں اور ملک مالی مشکلات یا کمزور عسکری صلاحیت کی وجہ سے کم تباہ ہوتے ہیں ۔ سماج سے برے بھلے، کھرے کھوٹے کی تمیز مٹ جائے تو انہیں برباد ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ شہریوں کا ریاستی اور قومی اداروں پر سے اعتبار اٹھ جائے تو رفتہ رفتہ قومی وجود کھوکھلا ہوجاتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ ماضی میں بھی بے شمار قو میںا ور مما لک محض اس لیے صف ہستی سے مٹ گئے کہ وہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہوئے اورمعاشرے کے فعال طبقات اور حکمران اشرافیہ نے ا س زوال کو روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ناکام ریاستوں میں سب سے پہلے ریاستی ادارے جو ملکی استحکام اور ترقی کی ضمانت ہوتے ہیں وہ عوام کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان کے ریاستی ادارے سوائے چند ایک کے لگ بھگ سب اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر چند ماہ قبل امریکا کے ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے تحت دنیا کے ایک سو اٹھائیس ممالک کی عدلیہ کی کارکردگی اور عدالتی نظاموںپر کی جانے والی تحقیق کے مطابق پاکستان اس وقت انصاف کی فراہمی کے حوالے سے دنیا کے ایک سو اٹھائیس ممالک کی فہرست میں ایک سو بیسویں نمبر پر ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان سے نیچے افغانستان سمیت دنیا کے پسماندہ ترین سات اور ممالک ہیں۔ پولیس کا نام سنتے ہی شہریوں کو اپنی عزت اور آبرو کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔اکثر پولیس اسٹیشن عوام کے لیے عقوبت خانوں سے کم نہیں ۔پراپرٹی ٹائیکون شہریوں کی زمین ہتھیانے کے لیے نامی گرامی غنڈوں کی خدمات مستعار لیتے ہیں۔ انتظامیہ اورپولیس ان کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی لاٹھی بنی تماشا دیکھتی ہے ۔مظلوم اور بے بس شہری رل جاتے ہیں۔ بازار یا کسی گلی کوچے میں چلے جائیں اور عام لوگوں سے پوچھیں کہ تعلیمی نظام کیسا ہے تو نوے فی صد شہریوں کی رائے ہوتی ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ڈگریاں تقسیم کرنے کے ایک بندوبست کے سواکچھ نہیں۔ملک میں قائم سینکڑوںیونیورسٹیوں نے آج تک کوئی قابل ذکر ایجاد کی اور نہ کوئی عمرانی یا سیاسی علوم میں نیا نظریہ پیش کیا۔حتیٰ کہ ان یونیورسٹیوں میں خدمات سرانجام دینے والے کم ہی محقیقین کی تحریریں عالمی رسائل اور جرائد کی زینت بن پاتی ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کی شاخیں گلی محلے میں پائی جاتی ہیں لیکن وہ تعلیم کے نام پر شہریوں سے پیسہ اکھٹا کرنے کے کارخانہ ہیں۔ شفاخانہ اور معالجین کے بارے میں عوام کی رائے ہے کہ وہ مریض کے طبی مسائل کی تشخیص کم اور اس کی مالی حیثیت کا تعین کرنے اور پھر اسے کنگال کرنے کا دھندا کرتے ہیں۔عمومی طور پر جب تک کوئی شخص مجبور نہیں ہوتا وہ اسپتال کا رخ نہیں کرتا۔ سیاسی جماعتیں ابھی تک شخصیات یا چند خاندانوں کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کا داخلی نظام کمزور ہی نہیں بلکہ اس کا وجود ہی نہیں۔ فیصلہ سازی کا عمل مشاورت سے عاری اور چند شخصیات کے گرد گھومتاہے۔ رکن قومی اور صوبائی اسمبلی ہی اپنے حلقے یا علاقے کی تنظیم اور شہریوں کی قسمت کا فیصلہ کرتاہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جاری بحث ومباحثے کے معیار اور اراکان اسمبلی کے طرزعمل کو دیکھ کر اہل پاکستان حیران وپریشان ہیں کہ نہ جانے انہیں کس جرم کی ملی ہے سزا۔قانون سازی کرنے کے بجائے ارکان اسمبلی ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں ارکان اسمبلی وزیراعلیٰ پر حملے کرنے پر تلے تھے ۔ وہ مشکل سے جان بچا کر نکلے۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ آج تک ملک میں ایک بھی ایسا الیکشن نہ کرایاجاسکا جس پر سیاسی جماعتیں اور رائے عامہ آنکھیں بند کرکے یقین کرسکتی ہو۔ ہمارے گردونواح میںد رجنوں ایسے ممالک پائے جاتے ہیں جہاں الیکشن کمیشن اور الیکشن کے عمل پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔انتخابات میں شکست کو خندہ پیشانی سے قبول کیا جاتاہے۔ضمنی الیکشن یا عام الیکشن میں شکست کھانے والے افراد اور جماعتیں سراپا احتجاج بن جاتی ہیں۔ اور تو اور بجٹ کے اعداد وشمار کو بھی گورگھ دھندا قراردے کر مسترد کردیا جاتاہے۔ ملکی ترقی کی شرح نمو کیا ہے اور پاکستان کو کیا وسائل درکار ہیں ؟ ایسے سوالات ہیں جن کی صحت پر عمومی طور پر رائے عامہ کنفیوز رہتی ہے۔ سرکاری سطح پر پیش کیے جانے والے اعداد وشمار اور اندازوں کو غلط قراردیاجاتاہے۔ بسا اوقات سرکاری ملازمین محض حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خوشنما فگرز پیش کرتے رہتے ہیں۔حالانکہ ان ہی اعدادوشمار پر معیشت کا دارومدار ہوتاہے۔ بڑے تعمیراتی ادارے جو اربوں نہیں کھربوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ شہریوں کو خوشنما خواب د کھا کر انہیں پلاٹ یا مکانات فروخت کردیتے ہیں۔ قسطوں پر اربوں اور کھربوں روپے جمع کرتے ہیں۔ شہریوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ انہیں تین سال بعد پلاٹ دیاجائے گا لیکن عملاً دس سال بعد بھی کچھ نہیں ملتا۔ ایسی کوئی ریگولیڑی اتھارٹی نہیں کہ جہاں شہری جاکر انصاف حاصل کرسکیں۔ایسے ماحول میں ذہین اور باصلاحیت نوجوان نقل مکانی کر جاتے ہیں۔اشرافیہ عام آبادیوں سے ہٹ کر اپنے لیے الگ جزیرے تعمیر کرلیتی ہے۔ایک ہی ملک میں دو امیروں اور غریبوں کے لیے دو الگ ملک اور نظام بن جاتے ہیں۔ایسے میں ملک داخلی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتاہے اور شہریوں کا کسی ادارے پر اعتماد نہیں رہتا۔ بظاہر مضبوط نظر آنے والی عمارت دیمک زدہ ہوجاتی ہے۔ پاکستان کے اہل خیر کو سرجھوڑ کر غور کرنا چاہیے کہ کس طرح درپیش اخلاقی بحران سے نبردآزماہواجائے۔ اداروں اور شہریوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو کم کیا جانے ازحد ضروری ہے۔ سرکاری اور نجی اداروں کو شہریوں کو خدامات فراہم کرنے والے اداروں میں تبدیلی کیے جانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کو یقین بنائے بغیر ملک قائم نہیں رہ سکتا۔ ہر صورت میں سرکاری حکام کو اختیارات کے ناجائزہ استعمال اور ذاتی منفعت حاصل کرنے سے باز رکھناہوگا۔ پولیس، عدلیہ، دینی مدارس ، پبلک یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات نہ کی گئی تو وہ وقت دور نہیں کہ یہ سارا ڈھانچہ دھڑام سے زمین بوس ہوجائے گا۔ اس وقت کف افسوس ملنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ٭٭٭٭٭