کا پہلا ریڈیو براڈ کاسٹ‘ زیڈ اے بخاری کی سرگزشت میں نے کانگرس والوں کو خوش کرنے اور ریڈیو کی ساکھ جمانے کیلئے ہر قسم کے ہندوئوں کی تقریریں ریڈیو سے نشر کیں۔سروجنی نائیڈو‘ بابو راجندر پرشاد کرپلانی‘ پروفیسر ملکانی‘ امبیدکر‘ جیکر‘ مرار جی ڈیسائی‘ ہنی سنگھ‘ کرشنا ہاتھی سنگھ اور پنڈت نہرو غرض بڑے بڑے ریڈیو سے براڈ کاسٹ کرتے رہے، ہماری کوشش تھی کہ مسلم لیگ کا شاہین بھی زیر دام آئے۔لیکن ہماری کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ قائد اعظم کی کم فرصتی ہمیشہ مانع آئی۔ چندریگر ہمیشہ جواب دیتے تھے کہ مسلم لیگ کی طرف سے صرف قائد اعظم ہی ریڈیو پر تقریر کر سکتے ہیں۔ تم انہیں کے پاس جائو، قائد اعظم اگر ایک مرتبہ کسی بات سے انکار کر دیتے تھے،تو دنیا کی کوئی طاقت ان کے انکار کو اقرار میں تبدیل نہ کر سکتی تھی۔ مجھے بھی خوب معلوم تھا کہ اگر بے موقع بات ہوئی اور قائد اعظم نے براڈ کاسٹ کرنے سے انکار کر دیا، تو معاملہ ہمیشہ کیلئے بگڑ جائیگا۔ اس لئے کسی مناسب موقع کے انتظار میں تھے۔ خیر اللہ نے میری مدد کی، نومبر 1939ء کا ذکر ہے کہ رمضان کے مہینے کی آخری تاریخوں میں دہلی میں تمام سیاسی جماعتوں کا اجتماع ہوا۔جس میں شرکت کے لئے قائد اعظم بھی تشریف لے آئے۔ جب دہلی کا اجتماع ختم ہوا تو اخباروں میں اعلان کیا گیا کہ قائد اعظم 12نومبر کی صبح بمبئی پہنچیں گے۔ میں فوراً محمد علی منیار کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ اب موقع ہے میں تمہارے ساتھ کل صبح دہلی کے سٹیشن جائوں گا۔ ہم قائد اعظم سے یہ درخواست کریں گے کہ عید کی نماز عید گاہ میں پڑھیں اور شام کے وقت ریڈیو سے تقریر نشر فرمائیں۔قائد اعظم دہلی سے کامیاب واپس آ رہے ہیں یقینا وہ خوش ہونگے ،ممکن ہے اس خوشی میں ہماری درخواست منظور کر لیں۔ جب گاڑی سٹیشن پر آ کر ٹھہری اور قائد اعظم نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو بھائی منیار نے مجھے دھکا دیا اور میں گاڑی کے اندر گھس گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح بھی قائد اعظم کے ہمراہ فرسٹ کلاس کے کوپے میں سفر کر رہی تھیں۔ میں نے عرض کیا…اب کیا بتائوں کیا عرض کیا اور کیا الفاظ استعمال کئے۔قائد کے سامنے زبان کھولنے کی جرات ذرا مشکل سے پیدا ہوتی تھی۔ خدا معلوم میں نے کیا کہا‘ لیکن قائد اعظم نے خدا انہیں غریق رحمت کرے۔ اگلے روز عید گاہ میں نماز پڑھنے بھی تشریف لائے اور عید کا دن گزار کر شام کو انہوں نے ریڈیو پر تقریر بھی نشر کی۔یہ ریڈیو پر ان کی پہلی تقریر تھی۔12نومبر 1939ء عید کا دن یہ عید میرے لئے مبارک عید تھی، میں نے قائد اعظم کی خدمت میں درخواست کی کہ ریڈیو سے تقریر نشر فرمائیں اور انہوں نے یہ درخواست قبول کر لی مگر مجھ پر ایک خوف طاری ہو گیا کہ خدا جانے قائد اعظم کیا فرمائیں گے اور کانگرس کی حکومت ہے ،اگر قائد اعظم نے کانگرسیوں کو اصلی رنگ میں دکھایا تو میرا کیا حشر ہو گا؟ قائد اعظم عید کی نماز کے لئے تشریف لے گئے ،تو مجھے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ بھائی امتیاز بھی موجود تھے اور دہلوی صاحب بھی‘سارا شہر عید گاہ میں جمع ہو گیا تھا‘وہاں اعلان ہوا کہ شام کو قائد اعظم بمبئی ریڈیو سٹیشن سے تقریر نشر فرمائیں گے۔شام آئی تو ریڈیو کے آس پاس تمام سڑکوں پر ہجوم ہو گیا۔ اب میں بہت ڈرا کہ خدانخواستہ کوئی دشمن ہجوم میں گھس کر قائد اعظم کی گاڑی پر بم پھینک دے، تو کیا ہو گا؟اس خیال کا آنا تھا کہ میرے ہوش و حواس گم ہو گئے۔ میں دفتر سے باہر نکلا میرا باہر نکلنا تھا کہ لوگوں نے مجھے گھیر لیا۔ یہ روح پرور نظارہ دیکھ کر میرا دل بلّیوں اچھلنے لگا۔سروجنی‘ نہرو وغیرہ کے آنے پر بھی کبھی ایسی خوشی کا اظہار نہیں ہوا تھا۔ یہ جادو قائد اعظم ہی کے نام کا تھا کہ لوگ یوں ٹوٹ پڑے تھے۔ میں سیدھا قائد اعظم کے در دولت پر پہنچا۔ ابھی بہت وقت تھا۔ میں بیٹھا انتظار کرتا رہا۔ وقت سے کچھ دیر قبل قائد اعظم نے مجھے اوپر طلب فرمایا اور خود ریڈیو سٹیشن روانہ ہونے کی تیاری کرنے لگے۔ہم جب زینے سے نیچے اترے تو میں نے عرض کیا کہ ہجوم بہت ہو گیا۔ سن کر خاموش رہے۔ گاڑی میں بیٹھے تو میں نے عرض کیا کہ صاحب مجھے ڈر لگتا ہے۔ کڑک کر کہا‘ ڈر کس بات کا۔ میں نے عرض کیا اتنے بڑے مجمع میں کیا معلوم کوئی دشمن بھی ہو اور وہ…میرا فقرہ قائد اعظم کی بے نیازانہ مسکراہٹ میں گم ہو گیا۔ جب قائد کی سواری کوئنز روڈ پہنچی تو لوگوں کے بے پناہ رش کے باعث گاڑی کا آگے چلنا دشوار ہو گیا۔ گاڑی آہستہ آہستہ بڑھتے ریڈیو کے پھاٹک میں ہوئی۔لوگ اندر آنے لگے تو میں بہت گھبرایا۔ میری گھبراہٹ دیکھ کر قائد اعظم نے فرمایا: ان سے کہو کہ اندر نہ آئیں۔ ان کا یہ فرمان سن کر میں سکتے میں آ گیا۔ میں کیا اور میری آواز کیا اور میری حیثیت کیا کہ میں کہوں اور ہجوم اندر آنے سے باز رہے۔مگر قائد کا فرمان کیونکہ ٹالتا‘گاڑی سے باہر نکلا اور احاطے کی دیوار پر کھڑے ہو کر میں نے کہا کہ قائد اعظم کے حکم کے مطابق آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ احاطے کے اندر تشریف نہ لائیں۔سب قائد اعظم کے نام کی برکت تھی کہ میری آواز میںتاثیر پیدا ہو گئی اور آگے بڑھتے ہوئے لوگ یوں پیچھے ہٹ گئے، جیسے سمندر کی لہر ساحل تک آ کر پلٹ جائے۔ سٹوڈیو چوتھی منزل پر تھا۔ میں قائد اعظم کے ساتھ لفٹ میں سوار ہوا، لفٹ چلانے کے لئے میں نے اپنا ایک خاص آدمی متعین کر رکھا تھا۔ مجھے کسی اور پر بھروسہ نہیں تھا۔ جب پاکستان بنا تو اس لفٹ ڈرائیور کو ساتھ لے آیا، شاید یہ اب تک ریڈیو پاکستان کے کسی محکمے میں چپڑاسی ہے۔ خدا جانے زندگی کے دن کس طرح گزار رہا ہے۔ کسی کو کیا معلوم کہ قوم کے کتنے بے بہا سرمائے کی حفاظت اس غریب کے سپرد کی گئی تھی۔ قائد اعظم کی آواز تھی کہ صورِ اسرافیل‘ لہجہ تھا کہ صداقت کے سمندر کی لہریں۔ الفاظ تھے کہ ترستی مٹی پر باران رحمن۔ جس جس نے قائد اعظم کی تقریر سنی مبہوت ہو گیا۔کٹر ہندو اخبار ہندوستان ٹائمز نے اس تقریر پر متواتر تین دن اداریے لکھے۔مدراس ‘ کلکتہ‘ احمد آباد‘ لاہور کوئی بڑا مرکز اخباروں کا نہ تھا جہاں قائد اعظم کی تقریر ہفتوں موضوع سخن نہ رہی ہو۔ قائد اعظم کو اور ان کے طفیل مجھ کو اتنے ہار پہنائے گئے کہ عرض نہیں کر سکتا۔ قائد اعظم کی تقریر نے مسلمانوں کی زندگی میں نیا خون بھر دیا مگر انگریز اور کانگرس میرا خون خشک کرنے لگے۔ دہلی سے کیفیت طلب ہوئی کہ یہ تقریر کس کے حکم سے نشر کی گئی۔ میں نے جواب دیا کہ تقریر نشر کرنے کے لئے کسی کے حکم کی کیا ضرورت ہے‘ سٹیشن ڈائریکٹر کو حق پہنچتا ہے کہ مناسب تقریریں اپنے سٹیشن سے نشر کرائے۔ اس تمام کیفیت طلبی کے دوران جب بھی کبھی اس سٹوڈیو میں جاتا‘ جہاں سے قائد اعظم نے تقریر کی تھی تو مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے برات رخصت ہو گئی ہو۔کہاں تو وہ گہما گہمی اور کہاں ایسی خاموشی۔ میں دیر تک اس سٹوڈیو میں کھڑا رہتا۔ کانوں میں ان کی آواز اور ہاتھوں میں وہ تصویر جس پر انہوں نے اپنے دستخط کئے تھے اور لکھا تھا ’’ٹو مائی ذوالفقار‘‘اس کا ترجمہ اردو میں نہیں ہو سکتا۔ذوالفقار ایک تو میرا نام تھا اور دوسرے تلوار نام مذکر‘ تلوار مونث ترجمہ کیونکر ہو۔ہاں فارسی میں ترجمہ ہو سکتا ہے۔بنام ذوالفقار‘شکر ہے کہ فارسی میں تذکیر و تانیث کا جھنجھٹ نہیں‘ مگر مائی کا ترجمہ پھر بھی رہ گیا جب میں بمبئی کو چھوڑ کر پاکستان آیا، تو رستے میں میرا سب سامان لٹ گیا۔میری ساری عمر کی کمائی تاراج ہو گئی‘ اسی سامان میں یہ تصویر بھی تھی۔ میری زندگی کا بہترین سرمایہ۔ پس تحریر۔امریکہ سے میاں مشتاق کا فون آیا کہ لاک ڈائون تو ہے ہی عمران خان سے کہئے کہ رمضان کے ان دنوں کو عشرہ دعا بنا دیں تو کورونا کی وبا سے نجات ملے۔اب عشرہ نہیں بچا آخری طاق راتیںتو ہیں۔