ہماری یونیورسٹیوں کی حالت تعلیمی، تحقیقی اور اخلاقی اعتبار سے روزبروز ناگفتہ بہ اور درماندہ ہوتی جاتی ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں کا سب سے بڑا مسئلہ تو گرانٹ کا ہے کہ جو گرانٹ سرکار کی طرف سے انہیں ملتی ہے، وہ ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ رہی پرائیویٹ یونیورسٹیاں گو چند ایک کو چھوڑ کر ان کا تعلیمی معیار ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی کڑی نگرانی کے باوجود بحث طلب ہے۔ مثلاً یونیورسٹیوں کے بنیادی فرائض تدریس اور تحقیق ہیں۔پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ غالباً و جہ یہ ہے کہ ایچ ای سی کے ضابطے کے مطابق ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تحقیق کے لیے متعلقہ شعبے میں کم از کم تین پی ایچ ڈی کا ہونا ضروری ہے اور اکثر پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں مطلوبہ تعداد میں پی ایچ ڈی اساتذہ میسر نہیں ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں مالی معاملات اس درجہ ابتر ہیں کہ جوگرانٹ ملتی ہے وہ بدعنوانی اور بدانتظامی کی نذر ہو جاتی ہے۔ بقول کسے ان یونیورسٹیوں کوگرانٹ دینے کا کوئی فائدہ اس لیے نہیں ہے کہ ان کی جیبیں پھٹی ہوئی ہیں۔گرانٹ کا بڑا حصہ اس طرح غائب ہو جاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ آج کے اخبار سے معلوم ہوا کہ صدر مملکت نے ملک کے تمام چانسلروں کا اجلاس طلب کر کے یونیورسٹیوں کی حالت کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ہمارے خیال میں صدر مملکت وائس چانسلروں کا اجلاس طلب فرما کریہی نصیحت انہیں فرماتے تو وہ شاید زیادہ نتیجہ خیز ہوتا اس لیے کہ چانسلر جو صوبے کا گورنر بھی ہوتا ہے، اسے صوبے کے دیگر بے شمار امور بھی درپیش ہوتے ہیں، ان کے لیے یونیورسٹیوں میں ہمہ وقت توجہ مرکوز کرنا ممکن نہیں ہوتا اور پھر وہ یونیورسٹیوں کے معاملات سے براہ راست تعلق بھی نہیں رکھتے۔ اسی لیے یہ تو ممکن ہے کہ صوبوں کے چانسلر حضرات اپنی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کا اجلاس طلب کرکے انہیں اپنے معاملات کی درستگی اور اصلاح کی طرف سختی سے متوجہ فرمائیں اور کوئی ایسا طریقہ کارتجویز کریں کہ سرکاری یونیورسٹیوں کے جملہ معاملات سے وہ باخبر رہیں، ان کے مسائل چانسلر کے علم میں ہوں اور ان کے حل کے ضمن میں کیا کوششیں انتظامیہ اور اساتذہ کی جانب سے ہورہی ہوں، ان سے بھی گاہے بگاہے آگاہ کیا جاتا رہے۔ پچھلے روز صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کراچی یونیورسٹی کی کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے جہاں انہوں نے فرمایا کہ میں کراچی یونیورسٹی کی تعلیم کا وہی معیار دیکھنا چاہتا ہوں جو ماضی میں تھا۔ اس پر ہمیں یاد آیا ہے برسوں پہلے عہد ایوبی میں جب ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر کئے گئے تھے توانہوں نے اپنے اصلاحی اقدامات سے یونیورسٹی کا معیار اس درجہ بلند کر دیا تھا کہ کراچی یونیورسٹی کو پاکستان کی کیمبرج یونیورسٹی کہا جانے لگا تھا۔ ڈاکٹر قریشی کا اولین اصلاحی قدم ہر شعبے میں بہترین تجربہ کار اور صاحب علم اساتذہ کا تقرر تھا اور پھرجو نئے اساتذہ لیے گئے ان کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دے کر یورپ اور امریکہ بھیجنے کا اہتمام کیا گیا۔ فیکلٹی میں لائق اساتذہ کے میسر آ جانے سے معیار تعلیم بلند ہوا اور یونیورسٹی کی فضا علمی اور تحقیقی ہو گئی۔ ثقافتی سرگرمیوں اور تقریبات مثلاً مباحثے، مشاعرے، مقابلہ معلومات عامہ، کھیلوں کے مقابلے، ڈرامہ، مقابلہ مضمون نویسی کرائے گئے ،جن سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر ہونے کا موقع ملا۔ ذہین اور باصلاحیت طلبہ اپنی ان ہی صلاحیتوں سے مشہور ہوتے اور پہچانے جاتے۔ بعد میں شعر و ادب، سیاست اور دیگر شعبوں میں ان ہی باصلاحیت طلبہ نے نام پیدا کیا او رآج بھی بیوروکریسی اور سیاست میں یہی طلبہ ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان میں وہ طلبہ بھی شامل ہیںجو اعلیٰ تعلیم پا کر ملک سے باہر چلے گئے اور یورپ و امریکہ میں اپنی بہترین صلاحیتیں کھپا رہے ہیں۔ ڈاکٹر آئی ایچ قریشی، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر احسان رشید کراچی یونیورسٹی میں، حمید احمد خان، پروفیسر یو کرامت، جسٹس محمد شریف، ڈاکٹر محمد اجمل، پنجاب یونیورسٹی میں ایسے وائس چانسلرز تھے جنہوں نے اپنی یونیورسٹیوں کو علمی، تحقیقی اور تہذیبی اعتبار سے بلندی تک پہچانے میں گراں قدر کردار ادا کیا۔ لیکن ان یونیورسٹیوں کے زوال میں سب سے فیصلہ کن کردار اساتذہ اور طلبہ سیاست نے ادا کیا۔ اساتذہ کی رفتہ رفتہ تعلیم و تدریسی سے دلچسپی گھٹتی اور اپنی تنخواہ، ترقی اور مراعات سے بڑھتی گئی۔ اسی صورتحال نے اساتذہ برادری اور انتظامیہ کو دو متحارب فریقوں میں تبدیل کردیا اور ان میں کشمکش اور تصادم، کھنچائو اور دبائو کی وہ فضا پیدا ہوئی جس سے یونیورسٹی میں سیاست کی صورت حال ہموار ہوئی۔ وائس چانسلر اساتذہ کو اپنے گروپ میں شامل کرنے کے لیے انہیں بے ضابطہ طریقے سے ترقی اور مراعات دینے لگے اور یوں میرٹ کا اصول متاثر ہوا اور میرٹ کے نام پر وائس چانسلر کو ہدف تنقید بنانے والے اساتذہ اپنی نام نہاد لیڈری چمکانے میں پڑ گئے۔ دوسری طرف طلبہ سیاست نے یونیورسٹی کی فضا کو دائیں اور بائیں کی تفریق سے آلودہ کر دیا۔ ایشیا سبز ہے اور ایشیا سرخ ہے کہ نعروں تک معاملہ محدود رہتا تو بھی غنیمت تھا۔ غضب یہ ہوا کہ طلبہ تنظیمیں یونیورسٹیوں کے انتخابات میں حصہ لیتیں اور جو تنظیم جیت جاتی وہ یونیورسٹی انتظامیہ کے مقابلے پر متبادل انتظامیہ بن جاتی۔ ٹرانسپورٹ، کینٹین اور دیگر انتظامی معاملات ہی اس کے ہاتھ میں نہ آتے، تعلیمی و تدریسی معاملات میں بھی دخل اندازی شروع ہو جاتی۔ یہاں تک کہ تقرری کے فیصلے بھی یونین کے صدر اور سیکرٹری کے دبائو پر ہونے لگے۔ صدر ضیاء نے دہشت گردی کی روک تھام کے نام پر یونینوں پر تو پابندی لگا دی لیکن وہ بھی طلبہ تنظیموں کے وجود کو ختم نہ کر سکے اور بعد میں بھی اور آج تک ان تنظیموں کی جڑیں یونیورسٹیوں میں گہری ہیں اور بعض یونیورسٹیوں میں تو ان تنظیموں کے تصادم سے فضا آج بھی مکدر ہوتی رہتی ہے۔ طلبہ تنظیموں کا معاملہ یوں بھی لائق توجہ ہے کہ ہر تنظیم کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی بغل بچہ ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے معاملات کی اصلاح ممکن ہی نہیں جب تک اساتذہ اور طلبہ سیاست کو کیمپسوں سے جڑ سے اکھاڑ کر نہ پھینکا جائے۔ طلبہ کی غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے بعض شرائط اور پابندیوں کے ساتھ یونینوں کو بحال کیا جانا چاہیے کیونکہ نئی صورت حال میں کیمپسوں کی فضا ثقافتی اعتبار سے تقریباً بنجر ہو گئی ہے۔ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا راستہ تقریباً بند ہو گیا ہے۔ طلبہ کا علمی اور سیاسی شعور دن بدن پست ہو جاتا ہے۔ ان کے ذہن کسی بڑے آئیڈیل اور آنکھیں مستقبل کے خوابوں سے خالی ہو گئی ہیں۔ ایسا پہلے نہ تھا۔ ماضی کے طلبہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر پورے ملک و معاشرے کے لیے سوچتے تھے۔ آج کے طلبہ اپنی ذات سے باہر کسی مقصد میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے مناصب پر وہ لوگ فائز کئے جانے لگے ہیں جن پر ’’منصب اعلیٰ، شخصیت ادنیٰ‘‘ کی پھبتی کسی جا سکتی ہے۔ کئی وائس چانسلروں پر نیب کے مقدمات ہیں اور کئی پابند سلاسل کئے جا سکتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ جن یونیورسٹیوں کے ایسے وائس چانسلر ہوں، ان سے علم و تحقیق کے فروغ کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟حقیقت یہ ہے کہ موجودہ وزیراعظم نے عہدہ سنبھالنے سے قبل تعلیم میں اصلاح و انقلاب کی ضرورت پر کسی بھی سیاست دان کے مقابلے میں پہلی بار توجہ دلائی اور ہمیں ان سے امید ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بلند اور بہتر بنانے کے لیے کوئی مربوط اور منظم لائحہ عمل بنائیں گے۔ صدر مملکت کا چانسلروں کے اجلاس سے خطاب محض رسمی نوعیت کا ایک قدم ہے اس سے کسی بہتری کی توقع بے سود ہے۔ اعلیٰ تعلیم کا مسئلہ اعلیٰ ذہنوں کے غور و فکر کا محتاج ہے لیکن سوال یہ بھی تو ہے کہ ملک میں ایسے اعلیٰ اذہان کتنی تعداد میں ہیں جو اعلیٰ تعلیم اور یونیورسٹیوں کو بحران سے نکالنے کا طریقہ تجویز کرسکیں؟