افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستان سفارتی اہلکاروںکو گزشتہ 2 روز میں مسلسل ہراساں کیا گیا ہے۔ پاکستان کے نائب سفیر کے علاوہ کابل میں میڈیا، تجارت اور وزارت خارجہ کے افسران کو افغان پولیس اور انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے گھروں سے سفارتخانے جاتے ہوئے ہراساں کیا۔ ویانا کنونشن کے تحت سفیروں کو خصوصی تحفظ اور استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ یہ استثنیٰ صرف سفارت کار کی ذات کو نہیں بلکہ سفارتخانے کی عمارت اور سفیر کے سامان کو بھی حاصل ہے لیکن بدقسمتی سے ہمسایہ ملک افغانستان میں پاکستانی سفارت کاروں کو تنگ کیا جاتا رہا ہے۔ ان کی نقل و حرکت کو باقاعدہ مانیٹر کرکے ان سے سوال و جواب کئے جاتے ہیں جبکہ بعض مرتبہ تو رکاوٹیں کھڑی کرکے ان کی گاڑیوں کو روکا جاتا ہے جو ویانا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ 2017ء میں جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے کے ایک رکن کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا جبکہ ایک ماہ قبل بھی پاکستانی سفارتخانے پر پتھرائو کیا گیا۔ گو پاکستانی وزارت خارجہ نے افغان ناظم الامور کو طلب کرکے اس پر احتجاج کیا ہے لیکن پاکستان کے بار بار احتجاج کے بعد بھی ان مسائل میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوئی بلکہ تسلسل کے ساتھ ہراسگی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ افغان وزارت خارجہ بھی اپنے انٹیلی جنس ادارے کے سامنے بے بس ہے۔ لہٰذا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چاہئے کہ وہ افغان حکومت کو ویانا کنونشن کے تحت سفارت کاروں کو تحفظ دینے بارے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں تاکہ افغان شہریوں کی سہولت کے لئے سفارتخانے کھلے رہیں۔افغان صدر اشرف غنی اگر اپنی رٹ قائم رکھے ہوئے ہیں، تو اس کا عملی ثبوت بھی نظر آنا چاہیے تا کہ پاکستانی سفارتخانے کھلے رہیں اور افغان شہریوں کو ویزوں بارے کسی قسم کی تاخیر نہ ہو۔