باقی باتیں تو بعد میں ہوں گی میں چاہتا ہوں کہ پہلے دل کا بوجھ ہلکا کر لوں۔ زندگی میں بعض حادثات و سانحات ایسے بھی آتے ہیں جن کا صدمہ انسان ہی نہیں شجر و حجر بھی محسوس کرتے ہیں۔ دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے جواں سال بیٹے کی موت ایک ایسا ہی صدمہ ہے جس کا دکھ ہر کوئی محسوس کرتا ہے۔ میرے لیے یہ سانحہ دوسرے صدمے کا باعث ہوا کیونکہ میرا کائرہ صاحب کے ساتھ ذاتی تعلق خاطر ہے۔ قمر زمان کائرہ صاحب کے بیٹے اسامہ اور اس کے دوست حمزہ بٹ کی ٹریفک حادثے میں آناً فاناً موت سے ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ایسا دکھ والدین کے لیے بالخصوص ناقابل برداشت ہوتا ہے مگر زندگی دینے والا اپنی مرضی سے واپس لے لیتا ہے اور ہمیں اپنی رضا پر راضی ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ ایسے مواقع پر صبرِ جمیل ہی انسان کا سب سے بڑا سہارا ہوتا ہے۔ احمد امیٹھوی نے سچ ہی تو کہا ہے: زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے پیپلزپارٹی نے کائرہ صاحب کے بیٹے کے صدمے میں ہفتے کے روز کے لیے اپنی تمام سیاسی سرگرمیاں منسوخ کر دی تھیں۔ تا ہم کل بروز اتوار زرداری ہائوس اسلام آباد میں بڑی اور چھوٹی تقریباً سبھی سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں یا ان کے نمائندہ وفود نے بلاول بھٹو زرداری کی افطار پارٹی میں شرکت کی۔ باقی باتوں سے ہٹ کر اس افطار ڈنر کا ایک میسج بڑا واضح تھا کہ دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت نئی جنریشن کو سونپ دی گئی ہے۔ جہاں تک مسلم لیگ(ن) کا تعلق ہے تو اب ہر قسم کا کنفیوژن ختم ہو چکا ہے اور اس کی قیادت اب مریم نواز کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔ بلاول بھٹو کی بظاہر کامیاب افطار پارٹی کا سہرا حکومت کے سر جاتا ہے جس نے صرف نو دس مہینوں میں اپنی ’’حسنِ کارکردگی‘‘ سے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے سربراہوں نے پریس کانفرنس کے دوران ایک کامیاب پالیسی اپنائی۔ انہوں نے جمہوریت کا نام لیا نہ نیب کا اور نہ ہی حکومت گرانے کی بات کی۔ انہوں نے مہنگائی کے سونامی میں غوطے کھاتے عوام کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کیا اور پٹرول گیس کی قیمتوں میں اضافے کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ افطار پارٹی کی عمومی پریس کانفرنس کے علاوہ جناب لیاقت بلوچ کا ایک بیان ہماری نظر سے گزرا تو ہم نے اس کی تصدیق کے لیے براہِ راست بلوچ صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنے بیان کی تصدیق کی اور بتایا کہ انہوں نے افطار پارٹی میں قائدین کے درمیان تبادلۂٔ خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے ماضی میں 1970ء سے لے کر آج تک تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف جدوجہد کی۔ اگر یہ جماعتیں غلطیاں نہ کرتیں تو آج قوم کو بدترین حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ لیاقت بلوچ نے بتایا کہ عمران خان نے صرف آٹھ دس ماہ میں ملک کو بدترین حالات سے دوچار کر دیا ہے اور معاشی طور پر آئی ایم ایف اور امریکی حکومت کے سامنے جنرل پرویز مشرف سے بڑا سرنڈر کیا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ حکومت کی اتنی ناقص کارکردگی کا اصل سبب کیا ہے؟ سبب اس کا واضح ہے کہ عمران خان کی سیاسی ناتجربہ کاری اور ان کی یہ سوچ کہ وہ سیاست، سفارت، معیشت، معاشرت اور کھیل وثقافت غرضیکہ ہر موضوع کے ماہر بلکہ حرفِ آخر ہیں۔ غالباً آج تک خان صاحب کو یہ ادراک نہیں ہوا کہ معیشت عالمی سیاست سے جڑی ہوئی ہے۔ ان دس ماہ کے دوران خان صاحب کو کیا کرنا چاہئے تھا۔ اس عرصے میں خان صاحب کو صرف اور صرف معیشت کو اپنی تمام ترسوچ بچار اور سرگرمیوں کا مرکزی نقطہ بنانا چاہئے تھا۔ مگر خان صاحب نے گہرے اور سنجیدہ غور و فکر اور صلاح مشورے کے بجائے محض چند کاسمیٹک قسم کی کارروائیاں کیں۔ وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں فروخت کر دو، پرانی گاڑیاں نیلام کر دو، وزیر اعظم ہائوس میں کوئی نام نہاد یونیورسٹی قائم کر دو، وغیرہ وغیرہ۔ دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ناتجربہ کاری اور بد انتظامی کی بناء پر خان صاحب کو محض 6بلین ڈالرز کے لئے نہ صرف خود سرنگوں ہونا پڑا بلکہ پاکستان کی اقتصادی ساکھ کو دائو پر لگانا پڑا۔ جناب عمران خان نے برسرِاقتدار آنے سے پہلے اپنے لیے جو اعلیٰ معیارات خود ہی مقرر کر لئے تھے ایک تو وہ اور دوسرے ان کے اقتصادی اقدامات کے تضادات قدم قدم پر ان کے پائوں کی زنجیر بن چکے ہیں۔ ایک طرف جناب عمران خان نے سٹیٹ بنک کو مکمل خود مختاری دے دی ہے اور وہ بھی آئی ایم ایف کے نمائندے کو اور دوسری طرف روپے کی قدر کو مارکیٹ کی طلب و رسد کی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ان حالات میں منی چینجرز کو بلا کر ڈرانے دھمکانے کی کیا منطق ہے۔اس وقت حکومت کے کسی اقدام کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا۔ سٹاک ایکسچینج کے حصہ داروں کو ایک کھرب روپے سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو وہ فی الواقع مہنگائی کے ہاتھوں بلبلا اٹھے ہیں۔ خان صاحب نے تو ایک کروڑ نوکریاں دینی تھیں خان صاحب نے نوکری ایک نہیں دی مگر ان کی معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں تقریباً ایک کروڑ مزید لوگ خطِ غربت سے نیچے آ چکے ہیں اور کم از کم پندرہ لاکھ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ خان صاحب کروڑوں عوام کی زبوں حالی پر توجہ دینے کے بجائے ان سے لاتعلق ہو چکے ہیں۔ وہ غوطے کھاتے، ڈوبتے اور خودکشیاں کرتے ہوئے بے بس انسانوں کو اس عذاب سے نجات دلانے کے بجائے صرف یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ میرے پاکستانیوں! گھبرانا نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جگہ جگہ کھلی کچہریاں لگانے ‘رمضان بازار کے انتظامات کو بہتر بنانے اور عوام دوست معاشی پالیسیوں پر غوروخوض کرنے کی بجائے خان صاحب نے گزشتہ تین چار دنوں میں جس طرح کی تقریبات سے خطابات کیے اور بیانات دیئے ہیں۔ ان سے تو یہ لگتا ہے کہ جیسے وہ کسی اور ہی سیارے کے باسی ہوں۔ نوجوانوں کا مستقبل دلفریب ہو گا، یہاں الیکٹرانک گاڑیاں چلیں گی اور یہاں فضائی آلودگی نہیں ہو گی۔ خان صاحب ابھی تک گا، گے گی سے آگے نہیں بڑھے۔ خان صاحب کو تو اندازہ نہیں مگر چیئرمین نیب کو محسوس ہوا ہے کہ شاید کاروباری سرگرمیوں کے ماند پڑنے اور انتظامی بدنظمی کا ایک سبب نیب کو سمجھا جا رہا ہے۔ اس لیے انہوں نے آئندہ بزنس مینوں، بیورو کریٹس اور خواتین کو نیب آفس نہ بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر جناب چیئرمین اس زمرے میں واجب الاحترام اساتذہ کو بھی شامل فرما کر اس مستحسن اقدام کو چار چاند لگا دیتے۔ بہر حال جناب چیئرمین گزشتہ 9ماہ سے جرم بے گناہی میں گرفتار مفسر قرآن ڈاکٹر اکرم چودھری کی فی الفور رہائی کا حکم صادر فرما کر دینی، علمی اور تعلیمی حلقوں کی دعائیں لیں۔ اپوزیشن نے مولانا فضل الرحمن کو احتجاجی تحریک کا سپہ سالار مقرر کیا ہے۔ مولانا یقینا بہت خوش ہوں گے کیونکہ ان کے ہاں تو دس ماہ سے نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے اپوزیشن نے بات افطار سے احتجاج تک پہنچا دی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس تحریک کا مقابلہ بڑھکوں سے کرتی ہے یا دانشمندانہ دائو پیچ سے۔