ماہ رمضان خیر و برکت کی نوید لیکر تو آتا ہی ہے، مگر عرصہ دراز سے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں یہ خبروں کے متلاشی صحافیوں، طبقہ اشرافیہ، سیاسی و مذہبی لیڈروں نیز سفارت کاروں کیلئے نعمت مترقبہ لیکر نازل ہوتا آیا ہے۔ آئے دن کی افطار پارٹیوں کی بدولت، ڈنر ٹیبل صحافیوں کیلئے سیاسی و سفارتی شخصیات کے ساتھ غیررسمی روابط اور حالات و واقعات کی آگہی کا ذریعہ بھی بنتے تھے۔اگر کہا جائے کہ اس مقدس ما ہ میں بھارت میں سیاسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہوتی تھیں تو بے جا نہ ہوگا۔ نیوز رومز میں افطار پارٹیوں کے چرچے، ایک دعوت کے بعد دوسری افطاری کیلئے صحافی لنگوٹ کس رہے ہوتے تھے۔ صدر، وزیر اعظم، وزرائ، حزب اختلاف اور انکے لیڈران، سفارت خانے، غرض دارالحکومت میں موجود صاحب اختیار و استطاعت افراد اس ماہ کا بھر پور فائدہ اٹھا کرکچھ مسلمانوں کے ساتھ اظہاریک جہتی کے بطور ، مگر زیاد ہ تر اپنے آپ کو سیکولر جتانے اور اسکی نمائش کیلئے افطار پارٹیوں کا اہتمام کراکے اپنا ووٹ بینک پکا کرنے کا بھی سامان کرتے تھے۔بتایا جاتا ہے کہ 70کی دہائی کے آواخر میں سوشلسٹ لیڈر ہیم وتی نندن بہوگنا نے مسلمانوں میں سیاسی آئوٹ ریچ کیلئے افطار پارٹیوں کے سلسلہ کو شروع کیا جس کو بعد میں اندرا گاندھی اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سابق وزراء اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ، جن کی حکومت حلیف پارٹیوں کی بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی تھی، کے دور میں یہ افطار پارٹیاں پس پردہ سیاسی سرگرمیوں اورنا راض حلیفوں کو منانے کے کا م بھی آتی تھیں۔مگر پچھلے چار سالوں سے جب سے وزیر اعظم نریندر مودی نے قلمدان سنبھالا ، انتخابی سیاست میں مسلمان بے وزن تو ہو ہی گئے ہیں، دہلی میں افطار پارٹیوں کا کلچر بھی اچانک ختم ہوگیا۔ مودی نے آتے ہی وزیر اعظم ہاوس میں افطار کا سلسلہ بند کروایا، مگر سابق صدر پرناب مکھرجی نے صدارتی محل میں اس کو موقوف نہیں کیا تھا۔ نیز حلیف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزرائ، کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوںنے بھی اس سلسلہ کو برقرارہی رکھا تھا۔ موجودہ صدر رام ناتھ کووند نے چند روز قبل باضابط ایک پریس ریلیز جاری کرکے اعلان کیا، کہ صدارتی محل سے اب کوئی افطاری نہیں دی جائیگی، کیونکہ بقول انکے ایک سیکولر ادارہ کو مذہبی رسوم و رواج کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔دیکھتے ہیں کہ صدر صاحب اس قول کو دیوالی ملن یا ہولی ملن پر بھی صادق کریں گے کہ نہیں! وزیر اعظم مودی اور انکے دست راست حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر امیت شاہ نے جس طرح انتہائی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو ایک طرح سے سیاسی اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے، افطار پارٹیوں کا خاتمہ اس کی ایک واضع مثا ل ہے۔ حد تو یہ ہوئی کہ اس سال افطار پارٹی کے انعقاد کیلئے کسی سیکولر پارٹی نے بھی جرأت نہیں کی۔ کانگریس پارٹی جو ہر سال خاصے اہتمام کے ساتھ افطار پارٹی منعقد کرتی تھی، اسکے لیڈران افطار کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں۔خاصے لیت و لعل اور پارٹی کے مسلم راہنمائوں کی استدعا پر کانگریس صدر راہول گاندھی نے افطار پارٹی منعقد کرنے کی حامی تو بھر لی، مگر بتایا گیا اسکی زیادہ تشہیر نہیں ہونی چایئے۔ اس سال کے اوائل میںگجرات کے صوبائی اسمبلی انتخابات کے موقع پر گاندھی نے امیدواروں کو خصوصی ہدایت دی تھی، کہ وہ مسلم محلوں میں ووٹ مانگنے نہ جائیں اور ٹوپی وغیرہ پہن کر مسلمانوں کے انداز میں تصویر لینے سے گریز کریں۔نیز کسی مسلم ٹوپی والے شخص کو اسٹیج یا اس کے آس پاس نہ بٹھائیں۔ غرض کہ کانگریس یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ وہ مسلمانوں کی ہمدرد یا وفادار نہیں ہے۔ اس سال مارچ میں انڈیا ٹوڈے کنکلیو میں ایک سوال کے جواب میں سابق کانگریس صدر سونیا گاندھی نے کہا کہ بی جے پی نے عوام کو یہ باورکرانے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ کانگریس ایک مسلم پارٹی ہے اور انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کی پارٹی کے لیڈران اب اس تاثر کو زائل کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ معروف صحافی سہیل انجم کے بقول کانگریس اقتدار میں واپسی کیلئے خود کو ایک ہندو پارٹی کے طور پرپیش کرنا چاہتی ہے۔ ایک ایسی پارٹی کے طور پر جہاں مسلمانوں کیلئے کوئی جگہ نہ ہو۔ کیونکہ کانگریسی لیڈروں کے مطابق اگر انہوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کی ہمدرد جماعت کے طور پر پیش کیا تو ہندوں کے ووٹ انکو نہیں ملیں گے۔ بھارت کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کا وجود ہی مسلمانوں کی حمایت پر منحصر ہے۔1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس صوبہ میں مسلمانوں نے کانگریس سے کنارہ کشی کرکے اس پارٹی کا دامن تھام لیا ۔ انکی حمایت سے پارٹی کی سربراہ ملائم سنگھ یادو تین بار صوبے کے وزیرا علیٰ اور ایک بار مرکزی وزیر بنے ۔ ان کے صاحبزادے اور پارٹی کے موجودہ صدر اکھلیش سنگھ یادو بھی پانچ سال تک وزیر اعلیٰ کی مسند پر فائز رہے۔ ملائم سنگھ کو طنزاً ہندو انتہا پسند مولانا سنگھ اور مسلمان رفیق ملت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔اس پارٹی کا حال اب یہ ہے کہ ماہ رمضان سے دو ماہ قبل پارٹی سربراہ نے ضلعی صدور کو پیغام بھیجا کہ اس سال تزک و احتشام کے ساتھ افطار پارٹیوں کا اہتمام نہ کیا جائے۔ اگر ذاتی طور پر کوئی مقامی لیڈر افطار کا اہتمام کرتا ہے تو وہاں ملائم سنگھ یا اکھلیش سنگھ کی تصویر یا پارٹی کا بینر آویزاںنہیں ہونا چاہئے۔مزید ہدایت تھی کہ اگر کسی کی افطار پارٹی میں جانا ہو تو وہاں ٹوپی پہن کر سلفی یا تصویریں نہ کھینچیں یا کم از کم انکو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنائیں۔ افطار پارٹیوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانے پر بحث کی گنجائش تو ہے، مگر بھارت جیسے تکثیری معاشرہ میں یہ دیگر مذاہب یا طبقوں تک پہنچنے کا آئوٹ ریچ کا ایک ذریعہ بھی تھا ۔ایک منظم اور پر وقار ماحول میں روزہ کھولنا اور نماز مغرب کی صف بندی اور خاص و عام کا کندھے سے کندھا ملانا کہیں نہ کہیں ایک پیغام کا کام کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار کسی افطار پارٹی میں جب نماز پڑھانے کیلئے امام کی تلاش ہو رہی تھی تو پاکستانی سفیر عبد الباسط نے آگے بڑھ کر امامت کا منصب سنبھالا۔ دیگر مذاہب میں یہاں اسطرح کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جہاں سیکولر پارٹیاں افطار پارٹیوں سے دور بھاگتی نظر آئیں، وہیں دوسری طرف ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کی شاخ مسلم راشٹریہ منچ نے کئی شہروں میں مسلمانوں کیلئے افطاری کا بندوبست کیا ۔ خیر بھارت میں اس نئے رجحان کے تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یا انکی تقریبات میں شرکت کریں گی ان کو ووٹ نہیں ملیں گے۔ بی جے پی نے تو مسلمانوں کو چھوڑ دیا ہے، مگر اب بیشتر سیاسی پارٹیوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کے قریب نظر آتی ہیں، تو انہیں ہندو اکثریتی طبقہ کا ووٹ نہیں ملے گا۔ حکومت گجرات کے ایک سابق افسر ہر ش مندر کے مطابق مسلمانوں کیلئے اتنا برا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کہ تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔ گو کہ دنیامیں مسلمانوں کی جو آبادی ہے اس کا دسواں حصہ بھارت میں ہے، مگر اس کے باوجود وہ سیاسی یتیم بنائے گئے ہیں۔ مسلمان کل آبادی کا 15فیصد ہونے کے باوجود سیاسی طور پر بے وزن بنائے گئے ہیں۔عام انتخابات کے موقعوں پر تجزیہ کار اعداد و شمارکا حوالہ دے کر بتاتے ہیں ، کہ ملک کی 545رکنی لوک سبھا کی 100سے زائد نشستوںپر مسلمان فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ مگراب اگر مسلمان کسی پارٹی یا امیدوار کے حق میں متفق ہوکر ووٹ دیتے ہیں، تواکثریتی طبقہ یعنی ہندو بھی اکٹھے ہوکر اس کوشش کو ناکام بنادیتے ہیں۔ ملک میں متعدد مسلمان رہنمائوں نے دلتوں اور دیگر پسماندہ ذاتوں کی طرز پر مسلم پارٹیاں بنانے کی کوششیں کیں، مگر جنوبی صوبہ کیرالا کو چھوڑ کر یہ سارے تجربے ناکام رہے۔مثلا ًاگر کسی سیٹ پر مسلم ووٹ 15تا 30فیصد ہے، (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) تو کسی دیگر طبقہ کے ساتھ اتحاد کی صورت میں ہی وہاں سے یہ سیٹ مسلم امیدوار سمیٹ سکتا ہے۔ مگر دیکھا گیا ہے کہ اگر ہندو قوم پرست بی جے پی بھی ایسی سیٹ سے کسی مسلم امیدوار کو میدان میں اتارتی ہے، تو ہندو متحد ہوکر اسے ووٹ دینے سے گریز کرتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ گزشتہ9صدیوں سے مسلم حکمرانوں کی غلطیوں کے ’’باعث ‘‘ہندو لفظ مخصوص مذہب کی پہچان بن گیا۔اسلام جو کہ ایک آفاقی سماجی نظام کا نقیب بن کر دنیا میں آیاتھا۔ اس کے ماننے والوں نے بھارت میں کبھی بھی صدیوں سے دبے کچلے مظلوم طبقوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی اپنی حکومت اور طاقت کا استعمال کرکے ان طبقوں کو وسائل مہیا کرائے۔عہد قدیم میں بھارت میں الگ الگ مذاہب موجود تھے، جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیںتھا۔ مسلمان حکمرانوں نے ان سبھی کو ہندو کہنا شروع کیا۔ جبکہ ان کے عقائد میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ آہستہ آہستہ اس پوری آبادی نے اپنے آپ کو ہندو ماننا شروع کردیا۔ ورنہ بھارت میں ہندو طبقہ ایک طرح سے سناتن دھرم کے ماننے والوں تک ہی محدود تھا۔ آج بھی یہ طبقہ جو اپنے آپ کواعلیٰ ذات کے ہندو کہتا ہے ، مجموعی آبادی کا صرف 15فیصد ہے۔ اس پوری بحث کا مقصد یہ ہے کہ جب تک مسلمان وسائل سے محروم، دبے کچلے اور مظلوم طبقہ کے ساتھ اتحاد کرکے ان کی محرومیوں کے بھی نقیب بن کر کوئی سیاسی پلیٹ فارم بنانے کی کوشش نہیں کریں گے، کوئی بھی خالص مسلم پارٹی نہ صرف ناکامی سے دوچار ہوگی ، بلکہ سیاست کو پولارائز کرنے کا بھی کام کرے گی۔ اب یہ اہم سوال مسلمانوں کے سامنے ہے کہ کیا وہ سیکولر پارٹیوں کا دامن تھامے رکھیں، جنہیں ان کی تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جو ان کو صرف ووٹ بینک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔مسلمانوں کے لئے دوسرا حربہ یہ ہے کہ منفی ووٹ دینے کے بجائے بی جے پی اور دائیں بازوکی دیگر جماعتوں میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھائیں۔ مگر بقول پروفیسر اختر الواسع اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بی جے پی خود ہے جس نے شدت پسند ہندو نظریات کو اپنا محور بنایا ہوا ہے اور اس میںاقلیتوں کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں رکھی ہے۔ بی جے پی کی پچھلی اوتار یعنی بھارتیہ جن سنگھ، بھارتی سیاست میں 50 کی دہائی سے لے کر 80 تک دائیں بازو کی اہم جماعت تھی جس کے اعلیٰ عہدوں پر کئی مسلمان بھی براجمان تھے۔ اندرا گاندھی کے خلاف 1977ء کے انتخابات میں مسلمانوں اور دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام مرحوم سید عبداللہ بخاری نے جن سنگھ کے امیداروں کے حق میں مہم چلاکر جیتا بھی دیا تھا۔ بقول اخترالواسع 1984ء میں اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد صرف دو لوک سبھا سیٹوں تک سمٹنے سے بی جی پی میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی اور اس نے ہندو شدت پسندی کو گلے لگا کر رام مندرکی تحریک کو ہوا دے کر مسلمانوںکو معتوب و مغضوب بناکر ووٹ بٹورنے کا کام کرنا شروع کر دیا۔ بہرحال وقت کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم مودی اوران کی پارٹی کے لیڈران اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ کیا 20 کروڑ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر اور ان کو سیاسی طور پر بے وزن کرکے وہ بھارت کو ایک سپر پاور بنانے کا خواب پورا کر سکیںگے؟ مسلمان لیڈروں کو بھی اپنے اندر جھانک کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا سیکولر پارٹیوں کا دم چھلہ بن کر کس قدر قوم کا بھلا ہوا ہے ؟کیا ابھی وقت نہیں آیاکہ ایک متبادل سٹریٹیجی تیار کرنے پر سنجیدہ غور و خوض کیا جائے؟