جنگ میں سامان حرب اور حکمت عملی کی حیثیت مسلمہ‘ مگر لڑائی میں جیت قوت ایمانی سے ہی ہوتی ہے۔ امن معاہدے کی صورت میں دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور دنیا بھر کے بے پناہ وسائل کی طاقت کا پہاڑ افغان طالبان کے جذبہ ایمانی کی ہیبت سے رائی ثابت ہو چکا ہے۔ افغانستان امن معاہدہ کلی طور پر امن نہ سہی مگر امن کی جانب پہلا قدم اور امریکہ کا افغان جنگ میں اعتراف شکست ضرور ہے۔ اس معاہدے کی بنیاد میں 70ہزار پاکستانیوں سمیت 5لاکھ افغانیوں کا خون شامل ہے۔ دنیا کا افغان جنگ میں پاک فوج کے کردار کے بارے میں جو بھی گمان ہو مگر امریکہ کو روز اول سے اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ امریکہ کو میدان جنگ میں گو افغان طالبان کا سامنا ہے مگر پالیسی سطح پر اور حکمت عملی کے میدان میں امریکہ کا مقابلہ پاکستان سے تھا۔ اس جنگ میں امریکہ پاکستان اور سابق صدر پرویزمشرف کو فرنٹ لائن اتحادی اور جنگ میں پاکستان کو ہی مسئلہ قرار دیتا رہا ہے۔ امریکہ کو سابق صدر مشرف کے ڈبل رول کی شکایت رہی تو پاکستان کو امریکہ اور بھارت کی افغان حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی جنگ مسلط کرنے کا شکوہ۔ امریکہ افغانستان پر قابض ہونے کے بعد سے ہی افغان جنگ کو ففتھ جنریش ہائی برڈ وار میں تبدیل کر چکا تھا۔ پاکستان کو طالبان کی حمایت سے باز رکھنے کے لئے بھارت کی مدد سے افغان جنگ کو نہ صرف پاکستان تک پھیلا دیا بلکہ افغان حکومت کے پاکستان کے شدت پسندوں سے تعلقات سے تحریک طالبان پاکستان بھی تخلیق کی۔پاکستان کی سرزمین پر پلنے والے حامد کرزئی اور اشرف غنی پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے ساتھ پاکستان دشمنوں کی سرپرستی کرنے لگے۔ امریکہ ایک طرف تو سابق صدر مشرف کو پاکستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کے لئے مجبور کرتا رہا تو دوسری طرف افغان حکومت کے تحریک طالبان پاکستان سمیت پاکستان مخالف تنظیموں کی مدد سے پاکستان میں یہ تاثر مضبوط کر دیا کہ مشرف نے ڈالروں کے عوض افغان مجاہدین کو بیچ دیا۔ سابق صدر کو اسلام اور طالبان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے ان پر حملہ کرنے کے لئے شدت پسندوں کو سٹریٹجک معاونت فراہم کی گئی۔ پاکستان پر پراکسی وار مسلط کرکے 70 ہزار سے زائد جانی اور 180 ارب ڈالر مالی نقصان پہنچانا بھی اس ففتھ جنریشن وار کی حکمت عملی کا حصہ تھاکہ افواج پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعاون ختم کر کے افغانستان میں کٹھ پتلی حکومت کی راہ ہموار کی جا سکے اور جنوبی ایشیا بالخصوص ایران اور چین کو افغانستان میں بیٹھ کر کنٹرول کیا جا سکے۔ امریکہ کی فتھ جنریشن وار کو خیالی اور اس تحریک کو سابق صدر مشرف کی تعریف و توصیف کی بھونڈی کوشش اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ کیونکہ مشرف کے دست راست ریٹائرمنٹ کے بعد سے افغانستان میں بیٹھ کر افغان جنگ میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ مشرف کے بعد کی عسکری قیادت نے پاکستان کی سٹریٹجک پالیسی کو نہ صرف کامیابی سے جاری رکھا بلکہ ففتھ جنریشن وار کی ہر امریکی چال کو پاکستان کے بہترین مفاد میں بدل کر رکھ دیا ۔سابق آرمی چیف جنرل کیانی نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ بظاہر امریکی دبائو میں کیا مگر امریکہ کی یہ چال 42ہزار مربع کلو میٹر علاقے پر پاکستانی پرچم لہرا کر اور افغان بارڈر پر باڑ کی صورت میں دہشت گردی کو روک کر امریکہ پر ہی الٹ دی۔افغان جنگ میں جہاں تک افغان طالبان کے جذبہ جہاد کا کلیدی کردار ہے وہاں طالبان قیادت کی وسعت نظر کا بھی نمایاں کردار ہے۔ طالبان قیادت جو 9/11تک شدت پسند اور دنیا سے کٹی ہوئی تنہائی کا شکار محسوس ہوتی تھی اس نے میدان جنگ میں امریکہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے ساتھ عالمی سطح پر اپنی حیثیت بھی منوائی۔ پاکستان کی معاونت سے طالبان نے سب سے پہلے ایران سے نہ صرف اپنے تعلقات پر نظرثانی کی بلکہ اپنے ماضی کے دشمن روس سے بھی مراسم پیدا کئے اور چین اور روس کی امریکہ کے خلاف حمایت حاصل کی۔ طالبان کی اس کامیابی کے بارے میں عالمی برادری کو تو وہم ہو سکتا ہے مگر امریکہ حقیقت سے اچھی آگاہ ہے کہ طالبان کے لئے پاکستان کی مدد کے بغیر ان اہداف کا حصول ممکن نہ تھا یہاں تک کہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کے لئے مذاکرات کرنے والے طالبان رہنمائوں کی قیادت کرنے والے ملا عبدالغنی برادر بھی دو حہ پاکستان کے پاسپورٹ پر پہنچے تھے۔ امن معاہدہ یقینا طالبان کی جیت ہے۔ طالبان کی میدان جنگ میں کامیابی اور پاکستان کی عسکری حکمت عملی کا حصہ اور سچ بھی ایک دن سامنے آ جائے گا۔ امریکہ کے علاوہ طالبان کو پاکستان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے۔ امن معاہدہ شروعات ہے، امن کی منزل کے لئے ابھی بہت جدوجہد کرنا ہو گی۔ امریکہ افغانستان سے فوجی انخلا پر راضی تو ہوا ہے مگر اتنی آسانی سے جانے والا نہیں۔ طالبان مکمل انخلا پر بضد ہیں امریکہ کے 8600فوجی افغانستان میں اس وقت تک موجود رہیں گے جب تک افغان حکومت اور طالبان کے امن مذاکرات جو مارچ میں شروع ہونے ہیں نتیجہ خیز نہیں ہو جاتے۔ طالبان کے دیگر سٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کی کامیابی کے بعد بھی امریکہ اینٹی ٹیررسٹ فورس کو افغانستان رکھنا چاہے گا اس کے علاوہ افغانستان میں امریکی سفارتخانہ کی حفاظت کی آڑ میں اچھی خاصی فورس موجود ہو گی کیونکہ امریکہ افغانستان کو جنوبی ایشیا میں اپنی ہائی برڈ وار کا مرکزی اسٹیشن بنا چکا ہے اور یہ ففتھ جنریشن وار افغانستان میں مختلف گروہوں کے باہمی جھگڑوں اور امریکہ اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ افغان سرزمین سے پاکستان‘چین اور ایران پر جنگ مسلط رکھنا چاہے گا۔ امن معاہدے کے بعد طالبان اور پاکستان کی عسکری قوت کے درمیان نہ صرف بہتر انداز میں تعاون جاری رکھنا ممکن ہو گا بلکہ پاکستان کی مشرقی سرحد بھی کافی حد تک محفوظ ہو جائے گی۔کل کیا ہو گا اللہ بہتر جانتا ہے مگر اب تک دنیا بھر میں یہ واضح ہو چکا۔ افغان باقی کہسار باقی