ہر مصیبت اپنے اندر خیر کا پہلو بھی رکھتی ہے۔ ہر تخریب کے اندر تعمیر کا پہلو مضمر ہے۔ کرونا وائرس کی افتاد غیر معمولی ہے۔ اس نے انسان اور انسان سے وابستہ زندگی کے ہزار رنگوں کو ہزار زاویوں سے متاثر کیا ہے۔ اتنے ہی ان گنت خیر کے پہلو بھی اس افتاد کے بطن سے پھوٹ رہے ہیں۔ اس بات پر شاید آپ کو حیرانی ہو لیکن ذرا سا زاویہ نگاہ بدلنے اور مشاہدہ کرنے کی بات ہے اور سب سے بڑھ کر محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا کبھی اس سے پہلے اذان کے الفاظ سنتے ہوئے آپ کی آنکھیں بھر آئیں تھیں؟۔نہیں نا۔!اور اب شہر کی سنسان اور خاموش زندگی میں جب مسجدوں سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے تو آنکھیں بھر جاتی ہیں۔ہم جو پرشکوہ مسجدوں کے حسین تعمیراتی پس منظر میں ‘گلیمرس فوٹو سیشنز کروانے والی شوقین مزاج قوم ہیں۔ ہمارے دلوں پر خال ہی اللہ اکبر کی صدا کا رمز آشکار ہوتا ہے۔ آج ویران مسجد کے میناروں کو دیکھیں یوں لگتا ہے جیسے وہ حزن میں ڈوبے ہوئے شہر قرنطینہ کی ویرانی پر اداس اور ملول ہیں۔ یہ وائرس جو پراسرار انداز میں پھیلتا ہے، غیر معمولی تیزی ،سے اس کی حفاظتی تدابیر کے طور پر مساجد میں اجتماع پر پابندی ہے۔ ایک چھوٹی سی خبر پڑھتے آنکھیں نم ہو گئیں کہ کراچی میں ایک پولیس اہلکار اعلان کر کے لوگوں سے اپیل کر رہا تھا کہ آج جمعہ کی نماز مسجد میں نہیں ہو گی۔ براہ کرم مسجدوں میں نہ آئیں۔ یہ اعلان بار بار کرتے ہوئے وہ زارو قطار رو رہا تھا۔نعمت جب چھن جائے تو اس کا احساس انسان کو تب ہوتا ہے۔ وبا کا موسم ہے۔ زندگی رک سی گئی اور اس ٹھہری ہوئی زندگی میں بیماری کے خوف کی آمیزش ہے۔ ایسے میں ہم صبح و شام وبا‘ مرض اور مصیبت سے بچائو کی مسنون دعائیں ‘ خضوع و خشوع سے وظیفہ کرتے ہیں۔ اس سے پیشتر‘ ہم نے کبھی اخلاص بھری توجہ کے ساتھ صبح و شام حفاظت کی دعائیں نہیں پڑھی تھیں۔ وبائی امراض سے بچنے کی دعائیں۔ صحت و عافیت کی دعائیں‘ اعضا کی سلامتی کی دعائیں ،غم و فکر ،سے خوف سے نجات کی دعائیں۔ پہلے زندگی کی اس قدر بھاگ دوڑ اور گہما گہمی میں اتنا وقت ہی کسی کو کب ملتا تھا کہ رسول کریمؐ کی اس سنت مبارکہ کو یاد کرتے اور اس پر عمل کرتے اور اب جب افتاد کے دن ہیں ،وبا کے خوف سے لرزتے ہوئے دن ہیں تو مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو یہ ساری مسنون دعائیں یاد کروا رہی ہیں۔ نجات اور عافیت کو یہی راستہ جاتا ہے۔پھر ایک احساس جاگتا ہے ،دل میں بالکل احساس زیاں کی آکاس بیل کی طرح دل لپٹتا ہوا کہ یہ جو ہمارے بچے انگریزی میڈیم سکولوں میں پڑھتے ہیں، انگریزی سوشل سٹڈیز ‘ سائنس کے نام پر نجانے کیا کیا کچھ اپنے ننھے دماغوں میں ڈالتے ہیں۔ ان کے نصاب میں یہ ساری مسنون دعائیں کیوں شامل نہیں ہیں۔ یقینا والدین سکھا سکتے ہیں لیکن نصاب کا حصہ بنانے میں کیا رکاوٹ ہے۔ ہر ماں باپ کو تو شاید یاد بھی نہ ہوں لیکن سکول اس کی اہمیت پر توجہ دے گا تو بچے تمام عمر یاد رکھیں گے۔ وبا کے موسم میں تو امریکہ کے صدر بھی دعا کا دن منانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اٹلی کا وزیر اعظم تمام تر ٹیکنالوجی اور وسائل کے باوجود غیر معمولی تباہی پر پکار اٹھتا ہے کہ ہم آسمانوں کی طرف مدد کے لئے دیکھ رہے ہیں۔کعبہ کا طواف رکا ہے تو مسلمان اس کی ویرانی پر آنسو بہاتے ہیں۔ اس برس پاکستان نے حج پروگرام کو اسی وبا کے تناظر میں معطل کر دیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ دس دس عمرے اور تین تین حج کرنے والے اپنے دلوں کے اندر جھانکیں اور اپنی عبادتوں اور اعمال میں بھیانک تضاد کو محسوس کریں پھر سوچیں کہ رب کعبہ کہیں اسی بات پر ناراض تو نہیں ہے۔ ہم تو وہ ہیں جواس کے حضور پہنچ کر بھی فیس بک پر لائیو رہتے ہیں۔ کعبہ کے سامنے سلفیاں کھنچوا کر پوری دنیا میں تشہیر کرتے ہیں۔حج اور عمرے کی عبادت میں رب کی خوشنودی سے زیادہ ہمیں سوشل میڈیا پر ملنے والے لائکس کی فکر ہوتی ہے۔ ہائے ہائے رب کعبہ کو ہم کیسے کیسے دھوکے دیتے ہیں۔ حج کے بعد اپنے تئیں پاکیزہ ہو کر پھر سے جھوٹ ‘ ملاوٹ ‘ دھوکہ دہی ذخیرہ اندوزی‘ خیانت، وعدہ خلافی کو طرز حیات بنا کر اگلے برس پھر سے عمرے کا پروگرام بنا لیتے ہیں۔ میرا گمان کہتا ہے کہ دلوں سے تضاد اور ریا کاری کا یہ زنگ اسی وبا کے موسم میں اترے گا۔ احساس زیاں ضرور ہو گا ،یہ جو ہم توبہ کی بات کرتے ہیں کیا توبہ محض زبان سے ادا کئے ہوئے چند جملوں کا نام ہے؟ خیر کا ایک اور پہلو جو میں نے مشاہدہ کیا وہ یہ کہ ہمارے بیشترکالم نگاروں نے ہمیشہ سیاسی تماشہ گری کو اپنے کالموں کا موضوع بنایا۔ان کی تحریروں میں عام آدمی کا ذکر خال ہی کبھی آتا ہے۔ آفت اور وبا کے ان دنوں میں ہمارے سینئر کالم نگار بھی غریب شہر کے مسائل کی بات کر رہے ہیں۔ مجاہد بریلوی صاحب کے کالم کا عنوان دیکھیے۔ تین ہزار روپے میں بجٹ بھی بنا کر دیں۔یقین جانیں یہ بات بہت حوصلہ افزا ہے کہ ملک کا وہ تجزیہ کار جس کی بات اہل اقتدار تک پہنچتی ہے وہ بھی سیاسی معاملات سے ہٹ کر غریب کے مسائل کا ذکر کرے۔ آفت کے بطن سے پھوٹتے خیر کے بے شمار پہلو تذکرہ کرنے سے رہ گئے۔ جو انشاء اللہ کسی اگلے کالم میں بیان ہوں گے۔ ٭٭٭٭٭