بعض اوقات آدمی اپنے آپ کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ آج 11ستمبر ہے۔ مجھے آج اس پر بات کرنا چاہیے تھی مگر گزشتہ شب سے مری سوئی بھی ایک خیال پر اٹکی ہوئی ہے۔ اس لئے نائن الیون یا قائد اعظم پر بات کرنے کے بجائے میں اسی پر گفتگو کرنا چاہوں گا۔ اصل میں ٹی وی پر مصباح الحق کی تقرری پر بات ہو رہی تھی ۔ کسی نے کہا کہ وہ میانوالی کا ہے اور نیازی بھی ہے اس لئے اس پر ایسی نوازشات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس سے میرا ذہن ایک اور طرف سفر کرنے لگا۔ میں سوچنے لگا کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی بعض تصورات الفاظ یا افراد کا اسیر ہو کر بہت سے اہم فیصلے کرنے لگتا ہے۔ بات کو وسعت دیتے ہیں جب عمران خاں آئے تو ہماری سیاست میں کرکٹ کی اصطلاحیں استعمال ہونے لگیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے بہت اہم بات کہہ رکھی ہے کہ کسی بات کو سمجھنے کے لئے اس علم یا شعبے کے تناظر میں بات ہونا چاہیے وگرنہ آپ بھٹک جائیں گے‘ جیسے شاعری میں تصوف کی زبان تو استعمال ہوتی ہے۔ شریعت کی نہیں۔ آپ وہاں شراب کا ذکر پڑھ کر فتویٰ لگانے بیٹھ جائیں گے تو مطلب یہ ہو گا کہ آپ بات سمجھے ہی نہیں ۔میں یہاں عمران کی مثال نہیں دیتا کہ وہ تو کرکٹ میں حرف آخر ہیں مگر جب شیخ رشید ‘ شہباز شریف کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں تو محتاط ترین الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کرکٹ کی اصطلاحوں میں بات کرنے کے شوق میں ایسی بات کہہ گئے ہیں جو کم از کم کرکٹ میں خرابی نہیں خوبی گنی جاتی ہے۔ وکٹ کے دونوں طرف تو ایک اچھا بلے باز ہی کھیل سکتا ہے۔ جس کے پاس ہر طرح کا سٹروک ہو وہ وکٹوں کے دونوں طرف ہی نہیںچاروں طرف ہی کھیلے گا ایک محدود صلاحیت رکھنے والا صرف ایک طرف کھیلتا ہے اور پکڑا جاتا ہے۔ مگر ایسا کرکٹ میں ہوتا ہے‘ سیاست میں جو معنی وہ نکالنا چاہتے ہیں وہ اس میں سے نہیں نکلتے ۔یعنی وہ ادھر بھی ہیں اور ادھر بھی۔ زیادہ صاف لفظوں میں نواز شریف کے بیانئے کے ساتھ بھی ہیں اور فوج کے نکتہ نظر کے ساتھ بھی۔ ایک نہیں بیسوں باتیں اس دوتین سال کی سیاست سے نکالی جا سکتی ہیں جو کرکٹ کی اصطلاحیں استعمال کرنے کی خواہش میں بے معنی اور لغوہو گئیں۔ کرکٹ کو چھوڑیے ایک زمانے میں عمران خان کو سونامی کا لفظ استعمال کرنے کا بہت شوق تھا ۔وہ اسے اس معنی میں استعمال کرتے تھے کہ بڑا طوفان یا سیلاب ‘تبدیلی کا طوفان آنے والا بنتا ہے یا اصلاحات کا سیلاب آنے والا ہے۔ یہ بات تو چلو بنتی ہے مگر تبدیلی کا سونامی آنے والا ہے کا مطلب صرف یہ نکلتا ہے کہ تباہی آنے والی ہے ‘جب تک عمران اپنی اس لغرش پر قابو پاتے‘ وہ خاصا عرصہ تک اس لفظ کی آڑ میں تباہی کی ’’نوید‘‘ دیتے رہے۔ اس طرح بعض تصورات بھی آپ کو گھیر لیتے ہیں۔ عمران خاں سیاست آن جاب سیکھ رہے ہیں ‘خیبر پختونخواہ کے تجربے کے زور پر وہ ملک کے لئے بڑا ماڈل بنانا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انفراسٹرکچر ‘ پل ‘ فلائی اور میٹرو بنانا‘ اہم نہیں۔ اصل اہمیت افرادی قوت کی ہے درست بات کہی۔ ویسے پشاور میٹرو کی صورت میں ان کی حکومت نے انفراسٹرکچر بنانے کی جو کوشش کی وہ گلے کا ہار بنی ہوئی ہے۔ چلئے یہ آپ کا شوق نہیں تھا مگر سماجی بہبود کے کام افرادی قوت کی تشکیل و تعمیر تو آپ کا مطمع نظر تھا۔ صحت اور تعلیم کا شعبہ لے لیجیے۔ انہوں نے شوکت خانم کی صورت میں صحت کے شعبے میں ایک شاندار تجربہ کیا تھا۔ جو آئیڈیل نہ سہی مگر ہے قابل تعریف۔ اس میں غیر ملکی ماہرین نے مشورہ دیا کہ آپ صرف کینسر ہسپتال ہیں خود کو اس تک محدود رکھیے۔ چنانچہ انہوں نے تشخیص کے لئے لیبارٹریوں کا جو نیٹ ورک بنایا۔ اس میں فیس یا معاوضہ ذرا زیادہ ہی رکھ دیا۔ دلیل یہ تھی کہ ہم کینسر ہسپتال میں لیبارٹری سے کماتے ہیں اور اس کی آمدنی کینسر کے علاج کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک بار جب ڈینگی پھیلا تو شوکت خانم نے حکومت پنجاب کے کہنے پر ڈینگی کا سستا ٹیسٹ کرنے سے انکار کر دیا اور یہی دلیل دی کہ یہ کینسر کے علاج کے لئے ہماراذریعہ آمدنی ہے۔ حتیٰ کہ سخت کارروائی ہوئی تو یہ ڈھب پر آئے ۔ غالباً یہی بات ذہن میں ہو گی کہ انہوں نے سرکاری ہسپتالوں میں ٹیسٹوں کی فیسیں کئی گناہ بڑھا دی ہیں۔ یہاں تک کہ مفت ادویات دینا ختم ہوگیا ہے۔ غالباً یہ خیال ہو گا کہ ہم ہیلتھ کارڈ جو دے رہے ہیں غریب لوگ اس سے ادائیگی کریں گے اور ہسپتالوں کی آمدنی کا ذریعہ بنیں گے۔ مجھے ٹھیک طرح معلوم نہیں یہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا ہیلتھ پروگرام عالمی اداروں کے تعاون سے چلتا ہے۔یہ کہ ادائیگی ان کی رقم سے ہو گی اور فائدہ صوبائی حکومت کو اس وسیلے سے ہو جائے گا۔ خدا ہی جانے کیا ذہن تھا مگر شوکت خانم ماڈل تھا۔ حیرانی اس بات پر ہوئی کہ جب لاہور کے لیور اینڈ کڈنی کے عظیم الشان ہسپتال کو تباہ کر دیا گیا۔ ڈاکٹر سعید اختر جو اس منصوبے کے روح رواں تھے بہت پرامید تھے کہ وہ عمران سے ملے ہیں عمران نے ان کی بات سنی ہے۔ انہیں معلوم ہو گا کہ شوکت خانم میں زیادہ تنخواہیں کیوں دی جاتی ہیں اس لئے کہ وہ باکمال ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس نہ کریں۔ افسوس ایسا نہ ہو سکا اورثاقب نثار نے اس منصوبے کو جس طرح تباہ کیا تھا۔ اس کا جواب تو اسے حشر میں دینا پڑے گا۔ یہ حکومت بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ خبر آئی ہے کہ اب یہاں جگر کا ٹرانسپلانٹ بند کر دیا گیا اور ڈاکٹر چھوڑ چھوڑ کر بھاگے جا رہے ہیں‘ کفایت شعاری کا بھوت بھی کبھی سر کو آ جاتا ہے۔ اگر ہم حسن ظن سے بھی کام لیں تو اس بارے میں یہی ہوا ہو گا۔ صحت کی بات ہو رہی ہے تو تعلیم کی بھی ہو جائے ہم افرادی قوت پیدا کرنا چاہتے ہیں‘ اعلیٰ تعلیم کے لئے جو ایک ادارہ ہے جس کے ذمہ یونیورسٹیاں چلانا ہی نہیں نئی افرادی قوت تیار کرنا بھی ہے اس کے لئے سکالرز کو وظائف دے کر باہر کی یونیورسٹیوں میں بھیجنا ہے اور ملک کے اندر بھی ریسرچ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس کا بجٹ کم کر دیا گیا ہے۔ بجٹ کوئی 109کروڑ مانگا گیا تھا۔ جو پہلے ہی 59کروڑ تھا۔ اب غالباً 43کروڑکر دیا گیا ہے۔ ڈالر کی قیمت زیادہ ہونے سے یہ مزید کم سمجھا جائے ۔ مزید تفصیل بھی ہے۔ ابتدائی تعلیم میں صوبائی حکومتیں جو کر رہی ہیں وہ بھی کم تشویشناک نہیں۔ اصل میں اس وقت میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض اوقات تصورات‘ الفاظ ‘افراد پائوں کی زنجیر بن جاتے ہیں وہ ایک مائنڈ سیٹ بنا دیتے ہیں۔ کرکٹ کو دیکھئے کرکٹ میں کوئی دوسرا عمران نہیں ہے تاہم اپنے عروج پر انہوں نے آسٹریلیا کرکٹ یا برطانیہ کو دیکھ کر جس ڈومیسٹک کرکٹ ماڈل کا خواب دیکھا تھا اس پر ڈٹے ہوئے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس کے ہمارے حالات میں کیا اثرات ہوں گے‘ بہتوں نے سمجھانے کی کوشش کی وہ سمجھے ہی نہیں۔ یہ احسان وانی کون ہیں ‘یہ محمد وسیم کہاں سے آئے ہیں تو تصورات پر اٹکنا نہیں‘ افراد پر اٹکنا ہے جب مصباح کرکٹ میں آئے تو کسی نے عمران کو بتایا کہ اپنے قبیلے میں ایک بچہ ابھر رہاہے۔ ذرا اس کو دیکھو عمران اس وقت مصباح کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ پھر جب کیریر کے آخری حصے میں تجربے نے مصباح کو ہماری ضرورت بنا دیا تو ایک بیان میں کہا ہم ایسی قوم ہیں کہ وقت پر مصباح کو پہچان نہ پائے‘ تب موقع دیا جب وہ آخری عمر کو پہنچ چکے ہیں بلا شبہ وہ عمدہ کپتان تھے مگر کھلاڑی کے طور پر بھی ان کا کیئر تب شروع ہوا جب ان کی کپتانی کی ضرورت پڑی۔ آخر اے ایچ کاردار ہمارے بہترین کھلاڑی تو نہ تھے یونس کے ساتھ ان کی تجربہ کارجوڑی خوب چلی۔ مگر وہ یونس نہیں ہیں۔ ان دنوں اکثر یونس اور ان کا ذکر اکٹھے کیا جانے لگا۔ ایک ایسے موقع پر یونس نے چڑ کر کہا ۔ میرا اور مصباح کا کیا مقابلہ۔ بہرحال اب عمران اپنا نظام اور اپنے افراد کرکٹ پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ایک زمانے میں مری رائے تھی کہ جو شخص کرکٹ ‘ ہاکی اور سکوائش سے باخبر نہیں ہے وہ پاکستانی ہی نہیں ہے۔ میں سپورٹس کے مبصرین کی رائے سنتا رہتا ہوں اور یاد کرتارہتا ہوں کہ یہ شعیب اختر جو اب بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں جب کھیل رہے تھے تو ان کا ڈسپلن کیسا تھا۔ مجھے یاد ہے راشد لطیف اور معین خاں میں کیا فرق تھا۔ ذرا اب باتیں سنو۔ ایک بار یاد ہے کہ ایک صاحب قاسم عمر تھے جنہوں نے دو ایک اچھی اننگز کھیلی یعنی وہ جاوید میاں داد پر سخت اعتراض کر رہے تھے۔ کسی نے غصے میں کہہ دیا کہ آپ کا اور میانداد کا کیا مقابلہ۔ ایسے ہی خیال آتا ہے کہ عمران کہیں اپنے ضمیر کی اس خلش کو تو دور نہیںکر رہے جو ابتدا میں مصباح کو نظر انداز کر کے ان کے اندر پیدا ہوئی ہو گی۔ افراد‘ الفاظ‘ تصورات تاریخ کے دھارے کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں مگر تاریخ اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔