خزاں رت کا فسوں دل و نگاہ کو کیسے گرفت میں لے لیتا ہے ، جو جانتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں۔ جو نہیں جانتے وہ جاڑے کے ان ابتدائی ایام میں فاطمہ جناح پارک چلے آئیںجہاںدرختوں کے پتے پھول بن چکے ہیں اور پت جھڑ میں جھیل کو جاتے راستے پر قوس قزح اتر آئی ہے۔ پارک کے داخلی دروازے کے پہلو میں ایک واکنگ ٹریک بناہے۔ یہ گویا خوابوں کی مسافت ہے۔ چلتے جائیے ، چلتے جائیے ۔یہ نام کا پارک ہے سچ میں تو پورا جنگل ہے اور جنگل میں منگل ہے۔ وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ایک حسین جنگل۔ راستے کے دائیں بائیں بیس بیس فٹ کے فاصلے پر مشعلیں لگی ہیں ۔بالکل ایسی ہی جیسے قدیم زمانوں کے قلعوں میں ہوا کرتی تھیں۔ایک ٹیلا سا بنا ہے جہاں سے ٹریک شروع ہوتا ہے۔ جاڑے کے موسم میں اس ٹیلے پر صبح سے شام تک دھوپ پڑتی ہے۔صبح دم جا کر بیٹھ رہیے اور دن ڈھلنے تک دھوپ سینکتے رہیے۔ ٹیلے سے اٹھ کر ٹریک پر آئیں تو سامنے قطار اندر قطار میپل کے درخت لگے ہیں۔پہلی نگاہ ان درختوں پر پڑتی ہے اور حیرت سے پتھرا جاتی ہے۔ درخت ہیں یا کینوس پر کسی نے رنگ بکھیر دیے ہیں۔ ایک ہی قسم کے درخت ہیں مگرہر درخت کا اپنا ہی رنگ ہے۔ کسی کے پتے ابھی سبز ہیں۔کسی میں زردی اتر آئی ہے۔ کچھ مکمل پیلے ہو چکے۔کچھ کا رنگ عنابی ہو چکا۔ کچھ نارنگی ہیں۔ کچھ گلابی ہیں ۔کچھ کی رنگت آتشیں ہو رہی ہے۔کچھ کے پتے جھڑ چکے ہیں اور شاخوں پر اب سفید پھول کھل چکے ہیں۔جاڑے کے سورج میں نیند نہاتی زمین پر حد نگاہ تک رنگ بکھرے پڑے ہیں۔ خزاں میں درخت تلے پڑے پتوں کا ڈھیر ایک طلسم ہوتا ہے۔ راستے اور پگڈنڈیاں بھی ان سے بھر جاتی ہیں۔یہ پتے جب پائوں تلے آتے ہیں تو ماحول میں سُر بھر جاتا ہے۔یوں لگتا ہے دور پہاڑوں پر کہیں رسول حمزہ توف کے حجرے میں کوئی چرواہا پاندور بجا رہا ہے۔جان ڈن نے The Autumnal میں لکھا ہے کہ جو حسن میں نے خزاں چہروں میں دیکھا ہے وہ نہ کسی بہار میں ہے نہ کسی گرم رت میں۔چلتے چلتے سرد ہوا کا ایک جھونکا آتا ہے اور درختوں سے پتے ٹوٹ کر ہوا میں تیرنے لگتے ہیں۔ مختلف رنگوں کے پتے جب جھونکے کے ساتھ پرواز کرتے ہیں تو سماں بندھ جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک پتا میرے سکارف میں آ کے اٹک گیا۔ اتار کر ہتھیلی پر رکھا تو سرخ رنگ۔ جیسے گلاب کی کوئی پتی ٹوٹ کر آن گری ہو۔ البرٹ کیمس یاد آ گئے۔ ادب کے نوبل انعام یافتہ فرانسیسی فلاسفر نے کہا تھا :خزاں کا موسم ایک ایسی بہار ہے جب ہر پتہ پھول بن جاتا ہے۔ دو مصنوعی جھیلیں راستے میں پڑتی ہیں۔جھیلوں کے کنارے قدیم طرز کے لکڑی کے ہٹ بنے ہیں۔ جا کر بیٹھ جائیے اور جھیل میں اترتے اور نہاتے پرندوں کی شوخیوں سے جی بہلائیے۔مارگلہ کے جنگل میں پائے جانے والے پرندوں کی اکثریت خزاں کی دھوپ میں ان جھیلوں پر پائی جاتی ہے۔کوئل ، ہمالیائی بلبل ، انڈین زابن، پانچ سات رنگوں کی بشچییٹ، بلیو راک تھرش، فن ٹیل ، سات آٹھ رنگوں اور قسموں کے کنگ فشر ، ہد ہد ، بار بیٹ ، فاختہ ، مینا ، چڑیا اور جانے کون کون سے پرندے ان جھیلوں پر منڈلارہے ہوتے ہیں۔پانی پر اترتے ہیں، تہہ آب پروں کو پھڑپھڑاتے ہیں ، ڈبکی لگاتے ہیں اور دھوپ تاپنے کناروں پر جا بیٹھتے ہیں۔خزاں رت میں ان کی چہچہاہٹ سے وہ موسیقی پھوٹتی ہے، جان کیٹس یاد آتے ہیں: Where are the songs of spring? Ay, Where are they? Think not of them, thou hast thy music too, ’’بہار کے نغمے کیا ہوئے؟ کچھ خبر ہے؟ اے خزاں اب ان کا مت سوچ کہ تمہارا اپنا دامن موسیقی سے بھراہے‘‘ اردو کے شاعروں کو خدا جانے کیا مسئلہ ہے ، انہوں نے خزاں کو مایوسی اور اداسی کا عنوان بنا دیا ہے۔فارسی میں بھی قریب قریب یہی عالم ہے۔ صائب تبریزی نے تو حد ہی کر دی۔باغِ را صحرائی محشر می کند فصلِ خزاں(خزان کا موسم باغ کو صحرائے محشر میں تبدیل کر دیتا ہے)۔بلاوجہ کا ایک سوگ اور سوز خزاں سے منسوب کر دیا گیا ہے۔خزاں کا ذکر آتے ہی ہمارا شاعر غم جہاں کا حساب کرنے بیٹھ جاتا ہے اور اسے ہر بات پر رونا آ جاتا ہے۔ناصر کاظمی دہائی دیتا ہے ’’ دورِخزاں میں یوں میرا دل بے قرار ہے‘‘ ۔ محمود درویش نے فلسطینیوں کے دور الم کو خزاں قرار دیا ہے۔فیض جیسا آدمی بھی کہتا ہیـ: رہِ خزاں میں تلاشِ بہار کرتے رہے شبِ سیہ سے طلب حسنِ یار کرتے رہے انگریزوں کے ہاںالبتہ خزاں شناسی پائی جاتی ہے اوروہ جانتے ہیں اس موسم کا حسن اور سحر کیا ہوتا ہے۔وادرنگ ہائیٹس کی مصنفہ کی ایملی برونٹی کی نظم Fall, Leaves, Fall بھی کیا کمال کی چیز ہے۔یہ الگ بات کہ ناقدین اور مبصرین نے اس میں سے بھی مایوسی اور موت کے عنوان نکال لیے۔این آف گرین گیبلز کی یہ سطر خزاں کی آرتی اتارتی ہے کہ I am so glad I live in a world where there are Octobers’’ میں بہت خوش ہوں میں اس دنیا میں ہوں جہاں اکتوبر کے مہینے پائے جاتے ہیں‘‘۔میری این ایونز المعروف جارج ایلیٹ نے تو خزاں کا سہرا ہی لکھ ڈالا۔ایک خط میں لکھتی ہیں:’’اے پر کیف خزاں ! میری روح تجھ سے بیا ہی گئی ہے۔اور اگر میں ایک پرندہ ہوتی تو ایک کے بعد دوسری خزاں کی تلاش میں دنیا بھر میں اڑتی پھرتی‘‘۔خزاں گائوں کی ہو یا مارگلہ کے دامن کی، جب دبے پائوں اترتی ہے تو دل کو کئی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔اوطاقوں میں رکھے لالٹین ، محرابوں پر دھرے دیے ، نیچے وادی کے کسی مکان کے چولہے سے اٹھتا دھواں، ٹھٹھرتی ہوا کے دوش پر سفر کرتی مغرب کی اذان ، پہاڑ سے اترتے ریوڑ کے گلوں میں بجتی گھنٹیاں، لکڑی کے دھویں سے بھرے باورچی خانے میں چٹائی پر رکھی چنگیر میں تھوڑے سے ساگ پر دھرا بڑا سا مکھن کا پیڑا۔خزاں کی صورت تو قدرت نے سارے موسموں کے جمال کی تصویر اتار رکھی ہے۔ کچھ بھول رہا ہے کس نے کہا تھا: رعنائی بہار پہ تھے سب فریفتہ افسوس کوئی محرم رازِ خزاں نہ تھا