کون کہہ سکتا تھا کہ افغان طالبان اور ایران کے مابین باہمی قریبی تعلقات بھی قائم ہوسکتے ہیں مگر دونوں نے نہ صرف باہمی روابط استوار کیے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کیا۔1996 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام میں آنے کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کے بگاڑ میں اِضافہ ہونا شروع ہوگیا اور اِس کی توقع بھی کی جا رہی تھی کیونکہ دونوں ملکوں میں اِسلام کے مختلف مسالک کو ماننے والے اور سخت گیر موّقف کے حامل گروپوں کو حکومتی نظام میں مرکزی فوقیت حاصل تھی۔ اِسی پس منظر میں1998 میں افغانستان اور ایران کے مابین حالات اتنے کشیدہ ہو گئے کہ جنگ چھڑتے چھڑتے رہ گئی۔ لیکن بعد میں اسی ایران نے اَمریکہ کے خلاف طالبان کی حمایت کرنا شروع کردی حالانکہ اس وقت بھی ان کا مسلک تبدیل نہیں ہوا تھا تو پھر ایران کے رویے میں تبدیلی کیونکر ہوئی؟ یہ وہ سوال ہے جس پر گفتگو ہو سکتی ہے کیونکہ اِسی جواب کی بنیاد پر افغانستان اور ایران کے درمیان مستقبل کے تعلقات کی نوعیت کے متعلق بھی قیاس آرائی کی جا سکتی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی تھیوریز یہی وضاحت کرتی ہیں کہ ریاستوں اور ملکوں کے مابین تعلقات خالصتاّ مفادات کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیں اور مذہب، رنگ اور نسل کی قید سے مکمل آزاد ہوتے ہیں کیونکہ ریاستیں بھی افراد کی طرح صرف اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں اور حتی المقدور اِن مفادات کے حصول کو یقینی بناتی ہیں۔ اِس کی تازہ مثال فرانس اور امریکہ کے درمیان باہمی تعلقات میں حالیہ کشیدگی ہے۔ فرانس اور امریکہ پرانے حلیف ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں ملک مغربی جمہوریت اور روایات کے علمبردار ہیں مگر جب تجارتی اور مالی مفادات ٹکرائے ہیں تو دونوں ممالک میں لفظی جنگ شروع ہوگئی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف رویے میں بھی تلخی کا عنصر غالب آگیا ہے۔ فرانس نے آسٹریلیا اور امریکہ سے اَپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں جبکہ واشنگٹن میں اپنے سفارت خانہ میں فرانس اور امریکہ کے سفارتی تعلقات کے جشن کی تقریبات بھی منسوخ کر دی ہیں۔ 2001 میں افغانستان پر اَمریکہ کے حملے کے نتیجے میں طالبان کو اِقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایران نے اس وقت اَمریکہ کے ساتھ تعاون کیا اور اِس تعاون کی وجہ غالباََیہ تھی کہ ایران امریکہ کی طرف سے معاشی پابندیوں میں نرمی کی توقع رکھتا تھا۔ امریکہ، اِسرائیل اور سعودی عرب جیسے اپنے روایتی حلیف کی مجبوری کی وجہ سے ایران پر سیاسی، سفارتی اور اقتصادی دباؤ میں کسی بھی قسم کی کمی لانا اَفورڈ نہیں کرسکتا تھا۔ تاہم جب ایران کی توقعات پوری نہ ہوئیں اور امریکہ نے کسی بھی قسم کی رعایت دینے سے اِجتناب کیا تو ایران نے بھی2005 سے امریکہ مخالف افغان طالبان سے روابط قائم کرنا شروع کر دیئے تاکہ افغانستان میں امریکہ کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں جس سے امریکہ کو زیادہ سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑے۔ اِسی طرح2015 میں افغانستان میں دولتِ اِسلامیہ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے پیشِ نظر ایران نے افغان طالبان سے تعلقات بڑھا دیئے کیونکہ داعش دونوں کے لیے مشترکہ خطرہ تھا۔ ایران نے افغانستان کے صوبہ ہلمند ، جِس کی سرحد اِیران سے مِلتی ہے، کے طالبان سے اپنے تعلقات اِس وجہ سے بھی قائم کر لیے اور انہیں اپنی ہمدردیاں اور حمایت کا یقین دلایا جِس کے نتیجے میں ایران اور افغان طالبان اَپنے ایک مشترک دشمن یعنی اَمریکہ کے مقابلے میں اِکٹھے ہو گئے اِس گٹھ جوڑ کا بنیادی اور قلیل مدتی ہدف امریکہ کو اِس عِلاقے سے نکالنا تھا جو کہ بِالآخر پندرہ اگست کو کابل پر طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے حاصل ہو گیا ہے مگر کیا طالبان کے زِیر اَثر افغانستان اور ایران کے مابین مستقبل میں بھی خوشگوار اور دِیرپا تعلقات قائم رہ سکیں گے؟ یہ اِیک پیچیدہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش اِس کالم میں کی جائیگی۔ مستقبل میں طالبان اور ایران کے باہمی تعلقات متعین کرنے میں یہ عنصر اہم ہوگا کہ طالبان اقلیتوں خصوصاّ شیعہ ہزارہ برادری کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ کرتے ہیں؟ ایران طالبان کی طرف سے بنائی گئی پہلی کابینہ میں ایران سے منسلک طالبان کو کابینہ میں کم نمائندگی ملنے اورہزارہ کے شیعہ برادری کو نظر انداز کرنے پر خوش نہیں تھا کیونکہ طالبان نے33 ممبران پر مشتمل جس پہلی کابینہ کا اعلان کیا تھا وہ سارے سنّی تھے اور تین کے عِلاوہ سارے پشتون تھے۔ اِسی لیے طالبان کی پہلی کابینہ پر اِیران کو بھی اِعتراضات تھے۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق کابینہ میں شمولیت نہ ہونے پر ہلمند سے تعلق رکھنے والے اِیرانی حمایت یافتہ طالبان رہنما ملاّ اِبراہیم صدر اور ملاّ قیوم ذاکر ناراض ہوکر کابل چھوڑ کر ہلمند واپس چلے گئے تھے۔ ایران اور طالبان کے درمیان کشیدگی کی دوسری وجہ پنجشیر کی لڑائی ہے کیونکہ ایران پنجشیر کی مزاحمت کو طاقت سے کچلنے کے مخالف تھا جس کے بعد ایران نے اپنے ملک میں طالبان مخالف مظاہروں کی اِجازت دے کر اَپنا موقف درج کروایا۔ اگرچہ طالبان نے کابینہ میں چند تبدیلیاں کی ہیں تاکہ اِیران کے ساتھ اَپنے اِیشوز کو ٹھیک کیا جاسکے۔20 ستمبر کو ہلمند سے طالبان کمانڈر داؤد مزّمل کو ننگرہار کا گورنر مقرر کیا گیا ہے اور ملّا اِبراہیم صدر کو نائب وزیرِدفاع مقرر کیا گیا ہے جبکہ ہزارہ گروپ سے بھی ایک شخص کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے جو شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ ایران طالبان کے حقانی گروپ سے خائف رہتا ہے جبکہ حقانی گروپ کے افراد کو عبوری کابینہ میں اَہم ذِمّہ داریاں دی گئی ہیں۔ اِس کے علاوہ ایران اور طالبان کے باہمی تعلقات کے مستقبل میں اِستحکام یا بگاڑ میں اِس بات کا اَہم کردار ہوگا کہ طالبان دولتِ اِسلامیہ خراسان کو کچلنے کے لیے اپنی کاروائیاں جاری رکھتے ہیں جبکہ افغانستان کے کمال خان ڈیم سے ایران کو پانی کی فراہمی بھی دونوں ملکوں کے مابین پائیدار اور مستحکم تعلقات کے قیام میں بنیادی کردار ادا کریگی۔