اسلام آباد (خبرنگار) عدالت عظمٰی نے سندھ اور بلوچستان حکومت سے ورکر ویلفیئر فنڈز(ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے حوالے سے پیشرفت رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ سندھ حکومت سے ہائی کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہے ۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد ورکرز ویلفیئر فنڈز پر وفاق کے کنٹرول کے بارے سوال اٹھاتے ہوئے آبزرویشن دی کہ کیا اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پیسے اکھٹا کرنے کی مجاز ہے ؟۔ دوران سماعت وفاق اور پنجاب حکومت نے اپنی اپنی رپورٹس جمع کرا ئیں جبکہ عدالت نے ورکرز ویلفیئر فنڈز سے متعلق وفاقی حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور وفاقی حکومت پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی مشینری کیوں کام نہیں کر رہی، یہ خواہ مخواہ ہم پر بوجھ پڑ گیا ہے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ حکومت نے آج تک کوئی ورکر کالونی نہیں بنائی، آفیسر پیسے دبا کر بیٹھے ہیں، سیر و تفریح ہو رہی ہے ،افسران باہر گھوم رہے ہیں، سیمینار میں شرکت کر رہے لیکن کام نہیں کر رہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خیبر پختون خواہ( کے پی کے )حکومت نے کالونی بنائی لیکن ساتھ ہی ملکیتی حقوق بھی دیدیئے ۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کس قانون کے تحت ملکیتی حقوق دیئے گئے ، یہ کالونی ریٹائرمنٹ پر چھوڑنی ہوتی ہے ۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ورکرز کو چیک کے اجراء میں تاخیر کیوں کی جاتی ہے ،چیک کے اجراء کے بعد ہی بچہ سکول جاتاہے اور بچوں کی شادی ہوتی ہے ۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ پہلے معاملات اتنے اچھے طریقے سے چل رہے تھے اب خراب ہو گئے ہیں،کیا افسران کو اس لیے بٹھایا گیا کہ تنخواہ لیں اور کام نہ کریں، کام صحیح سے کریں ورنہ حکومت کو کہہ دیں گے کہ محکمہ ختم کرکے کوئی اور محکمہ بنائیں، جو لوگ کام نہیں کرتے انہیں اٹھا کر باہر کر دیں،ہزاروں لوگوں کی زندگیاں مشکل میں ڈالتے ہیں۔ متاثرہ فریق کے وکیل نے کہاکہ بچوں کو یونیورسٹیوں سے نکال دیا گیا تھا، وزارت خزانہ پیسے نہیں دی رہی تھی ۔جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا 172 بلین روپے حکومت کے پاس ورکرز ویلفیئر فنڈ کے پڑے ہیں وہ خرچ کریں۔چیف جسٹس نے کہاکہ بدقسمتی سے یہ سب حکومت کی عدم دلچسپی ظاہر کرتا ہے ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گورننگ باڈی بن چکی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ کمپنیوں کے کان مروڑ کر پیسے لیے جارہے ہیں لیکن حکومت ورکرز ویلفیئر کو فنڈ نہیں دے رہی، ورکرز ویلفیئر، ای او آئی بی اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کا پیسہ اور کہیں نہیں لگایا جا سکتا۔علاوہ ازیں عدالت عظمٰی نے ا یف بی آر ملازمین کی ترقیوں سے متعلق کیس میں ادارے کے متعلقہ اعلٰی افسر کو طلب کرلیا ہے ۔عدالت نے قرار دیا بتایا جائے پابندی کے باوجود تعیناتی کیسے کی۔دریں اثناسپریم کورٹ نے ملک بھر کی ہائوسنگ سو سائٹیوں سے متعلق آڈٹ رپورٹ پر مزید کارروائی کیلئے ایف آئی اے کو درخواست جمع کروانے کی ہدایت کردی ہے ۔ دریں اثناء کمیونٹی مقاصد کے لئے مختص پلاٹ پر کمرشل پلازہ کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت سے جسٹس یحیٰی آفریدی کی معذوری کے بعد بینچ تحلیل ہوگیا ہے ۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ پلازہ مالکان کو ایک ہفتے میں دو کروڑ کی رقم لازمی جمع کرانا ہوگی باقی رقم کیلئے مزید ایک ہفتے کی مہلت دے دیں گے ۔