افغانستان پر طالبان کااقتدار قائم ہونے کے بعد وہاں کی معاشی صورتحال پاکستان کے لیے باعث ِتشویش ہے۔ کہنے کو تو افغانستان ایک الگ ملک ہے لیکن وہاں جو کچھ بھی رُونما ہوتا ہے اسکے پاکستان پر ایسے اثرات پڑتے ہیں جیسے ہمارے ملک کے کسی حصّہ میں یہ واقعہ پیش آیا ہو۔ افغانستان کے سیاسی ‘ معاشی حالات ہوںیا امن و امان کی صورتحال‘ پاکستان اِن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی دیکھیے کہ جیسے ہی کابل میں امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت منہدم ہونے لگی اور طالبان کامختلف صوبوں پر قبضہ ہونا شروع ہوا تو پاکستان میں امریکی ڈالر کی مانگ میں یکدم اضافہ ہوگیا۔ تقریباً پونے چار کروڑ آبادی کا ملک افغانستان چاروں طرف سے زمین سے گھرا ہوا ہے جسے کوئی سمندری راستہ نہیں لگتا۔ بیرونی ممالک سے بحری تجار ت کی خاطر اسکا بہت زیادہ انحصار پاکستان پر ہے۔ پانچ برس پہلے پاکستان بزنس کونسل کے اندازہ کے مطابق افغانستان کی نصف سے کچھ زیادہ بیرونی تجارت پاکستان کے ذریعے ہوتی تھی۔ اب بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ کابل میں اشرف غنی کی پاکستان مخالف ‘بھارت نواز حکومت کی وجہ سے پاکستان کی افغانستان کو برآمدات بہت کم رہ گئی تھیں۔ ان کا حجم پونے تین ارب ڈالر سے کم ہوکر اسیّ نوّے کروڑ ڈالر پر آ گیا تھا۔ توقع ہے کہ طالبان حکومت پاکستان کے بارے میں دوستانہ روّیہ اختیار کرے گی۔ اگر ایسا ہُوا توپاکستان کی افغانستان کو باقاعدہ برآمدات ایک بار پھر بڑھ جائیں گی۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کابل کے نئے حکمرانوں کے پاس پاکستانی مال خریدنے کے لیے زرِمبادلہ ہو جو اِسوقت انکے پاس نہیں ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈز نے طالبان حکومت کی امداد روک دی ہے جبکہ امریکہ نے انکے تقریباًدس ارب ڈالر مالیت کے بینک اکاونٹ منجمد کردیے ہیں۔ افغانستان کی سابقہ حکومت نے اپنے ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر امریکی مرکزی بینک میں رکھے ہوئے تھے۔ صدر اشرف غنی دور میں افغانستان حکومت کے بجٹ کے لیے دو تہائی فنڈز عالمی امداد (گرانٹ) سے آتے تھے۔ اگر یہ امداد بحال نہ ہوئی تو طالبان کیلئے معیشت چلانا بڑا چیلنج ہوگا۔ کابل کے خزانہ میں تیس چالیس کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم نہیں ہے۔اقوام ِمتحدہ نے طالبان قائدین کے نام ابھی تک دہشت گردوں کی فہرست سے نہیں نکالے۔یہ خدشہ موجودہے کہ امریکہ اور یورپ طالبان حکومت پر معاشی پابندیاں عائد کرسکتے ہیں۔ اگر یہ پابندیاں لگیں تو پاکستان کی معیشت بھی سخت دباو ٔمیں آئے گی۔ پہلے ہی حالیہ دنوں میں عالمی منڈی میں پاکستان کے بانڈز کی قدر کم ہوگئی ہے۔یہ بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ چین بڑے پیمانے پر کابل کی مدد کرے گا۔ جرمنی اعلان کرچکا ہے کہ اگر طالبان نے اسلامی شریعت نافذ کی تو وہ انکی حکومت کو تسلیم نہیں کرے گا۔ افغانستان میں انتہا کی غربت ہے۔ ملک کی مجموعی داخلی پیداوار کا اندازہ محض بیس ارب ڈالر ہے۔ گزشتہ برس کورونا وبا شروع ہونے سے پہلے اندازہ تھا کہ اِس ملک میں نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے گزر بسر کرتی ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ قدامت پسند کلچر میں عورتیں معاشی سرگرمی میں بہت کم حصّہ لیتی ہیں۔ صرف سولہ فیصد عورتیں لیبر مارکیٹ میں شامل ہیں۔ افغانستان کی دو تہائی آبادی ناخواندہ ہے۔ افغانستان قبائلی معاشرہ ہے۔ زراعت خال خال ہے۔کچھ باغات ہیں۔ افیون کی کاشت اور ہیروئن کی تیاری بعض گروہوں کی آمدن کا بڑا ذریعہ ہیں۔ صنعت کا وجود نہیں۔ امریکیوں نے گزشتہ بیس برسوں میں اس ملک میں سڑکوں کا جال تو بچھایا ہے لیکن صنعتی کارخانے نہیں لگا سکے جن سے لوگوں کی بڑی تعداد کو روزگار ملتا۔ امریکہ اور یورپ نے کھربوں ڈالر افغان حکومت کو دیے لیکن وہ زیادہ تر سکیورٹی اورسیاسی لیڈروں ‘ بدعنوان افسروں کی کرپشن کی نذر ہوگئے۔ اسی لیے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین جو محنت مزدوری کرکے روزی کماتے ہیں یا تجارت سے وابستہ ہیں وہ اپنے ملک واپس نہیں جاناچاہتے کہ وہاں کوئی روزگار نہیں ہے۔ افغانستان کے سیاسی مسئلہ کا دیرپا حل اسی میں ہے کہ وہاں بین الاقوامی برادری صنعتی ‘ معاشی زون بنا کر صنعتی کارخانے لگائے تاکہ بیروزگار افغان باشندے پُرتشدد تنظیموں میںشامل ہونے اورمنشیات اسمگلنگ کرنے کی بجائے محنت ‘ مزدوری کرکے روزگار کما سکیں ۔ چین یہ کام کرسکتا ہے ۔ اگر اس نے سی پیک کے تحت اپنی سرمایہ کاری کا دائرہ افغانستان تک وسیع کردیا اور طالبان نے اسکے لیے سازگار حالات پیدا کردیے تو کچھ برسوں میں افغانستان کے معاشی حالات بہتر ہونے لگیں گے۔افغانستان کے راستے چین اور پاکستان کی وسط ایشیا تک تجارت بڑھ جائے تو اس سے افغانیوں کو راہداری کی صورت میںاچھی خاصی رقم ملے گی۔ ایک بڑامنصوبہ عرصۂ دراز سے افغانستان کی بدامنی کے باعث رُکا ہوا ہے جو ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان تک گیس پائپ لائن بچھانے کا پراجیکٹ ہے۔ اگر طالبان اس پائپ لائن کو بچھانے میں مددگار ہوں تو چند برس بعد انہیں راہ داری میںبڑی رقم ملے گی جبکہ پاکستان کو سستی گیس۔ پاکستان کو گیس کی شدید قلّت کا سامنا ہے۔ پائپ لائن سے ملنے والی گیس ایل این جی گیس سے آدھی قیمت میں پڑتی ہے۔ افغانستان میں قیمتی دھاتوں کا بڑا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ بلخ کا علاقہ بیش قیمت دھات لیتھیم کا بڑا خزانہ ہے جو موبائل فون اور لیپ ٹاپ کی بیٹریوں میں استعمال کی جاتی ہے۔کئی صوبوں میں تانبے ‘ سونے ‘ چاندی‘ لوہے کے وسیع ذخائر ہیں۔ اگر امن امان ہوتو بیرونی سرمایہ کار دھاتوں کی کان کنی شروع کرسکتے ہیں جس سے افغانستان مالا مال ہوسکتا ہے ۔ انحصار اس بات پر ہے کہ بین الاقوامی برادری اور طالبان حکومت کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوتی ہے اور طالبان اپنے ملک میں کتنا سیاسی استحکام لانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔اگر افغانیوں میں نئی خانہ جنگی شروع ہوگئی توافغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کوبھی ہر اعتبار سے اسکا نقصان ہوگا۔