ایک عرب مسلم ملک نے دنیائے اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیاہے۔ متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ انتہائی افسوسناک ہے۔ یہ نہ صرف عرب ممالک ، عرب لیگ، اسلامی کانفرنس تنظیم بلکہ پوری دنیائے اسلام کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ جیساکہ فلسطینیوں نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے مشرق وسطیٰ کی رستے ہوئے ناسور کا حل قریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ دنیائے اسلام کی حالت زار کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترکی اور ایران مسلم دنیا کے یہی دو ملک ہیں جنہوں نے دوٹوک انداز سے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے جبکہ پاکستان نے محتاط ردعمل دیا ہے۔ حسب توقع سعودی عرب جس کی طرف تمام دنیائے اسلام کی نظریں لگی ہوئی ہیں نے خود پر مہر سکوت لگا رکھی ہے۔ بحرین، عمان اور مصر جیسے ممالک نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے، ان ممالک کا مربی بھی امریکہ ہے۔ اسرائیل نے عرب امارات کے ساتھ تعلقات کو اپ گریڈ کرنے کے اس فیصلے کے ساتھ یہ بھی اعلان کیا ہے کہ مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے فیصلے کو موخر دیا ہے لیکن اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتن یاہو نے واضح کر دیا ہے کہ یہ محض عبوری اقدام ہے۔ گویا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے علاقے ہڑپ کرنے اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھنے کی پالیسی پر قائم رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل اور فلسطین دو ریاستیں تشکیل دینے کا معاملہ جو پہلے ہی کھٹائی میں تھا اب قریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ سائب ارکات نے ،جو فلسطین کے سینئر لیڈر اور اسرائیل سے مذاکرات کے ماہر ہیں ، انتہائی غصیلے بیان میں یو اے ای کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ اس اقدام سے جارحیت کو دوام دے رہے ہیں اور اس فیصلے کے بعد فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن ناممکن ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس معاملے میں یہودی نواز امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ بہت خوش ہیں بلکہ یہ سب کچھ امریکہ کی خاموش سفارتکاری کا ہی نتیجہ ہے۔ نتن یا ہو تو روز اول سے ہی کہہ رہا تھا کہ فلسطینیوں سے امن معاہدہ کیے بغیر بھی اسرائیل کی ہمسایوں سے صلح ہو سکتی ہے اور ایسا ہی ہوا ہے۔ ماسوائے شام کے مصر اور اردن جیسے ملک تو پہلے ہی امریکہ کے غلام ہیں گویا کہ یہ فارمولا کہ امن کے بدلے فلسطینیوں کو رعایت دی جائے، تج کر دیا گیا ہے لیکن دوسری طرف اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتاکہ مشرق وسطیٰ کا تنازع محض اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان نہیں ہے اور نہ ہی امارات نے اسرائیل سے کبھی کوئی جنگ لڑی ہے بلکہ اس کی سرحدیں بھی اسرائیل کے ساتھ نہیں ملتیں۔ اس معاہدے کے بعد فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت مزید تیز ہو جائے گی اور سفارتی طور پر اسرائیل کے خلاف کوششوں میں تیزی آجائے گی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اپنے تندوتیز بیان میں اس معاہدے کو بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور فلسطینی کاز سے غداری قرار دیا ہے۔ فلسطینیوں نے 57 ملکوں پر مشتمل اسلامی کانفرنس تنظیم اور عرب لیگ کا فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس فیصلے کی مذمت کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب ایسا نہیں ہونے دیں گے اگر ان فورمز کے اجلاس بلانے کا مقصد متحدہ عرب امارات کو یک و تنہا کرنا ہے تو ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس تناظر میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی حال ہی میں بھارت کے کشمیر کو ضم کرنے کے ایک سال مکمل ہونے پر اسلامی دنیا بالخصوص عرب دنیا کے نیم دروں نیم بروں روئیے پر اظہار خفگی کر چکے ہیں لیکن اب انہیں بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر تو ایک طرف عرب ممالک اپنے خطے میں فلسطینیوں کے ساتھ سالہا سال سے جو ظلم روا رکھا جا رہا ہے اس کے خلاف آواز اٹھانے کو بھی تیار نہیں بلکہ ان ممالک نے امریکہ کے آگے سجدہ سہو کر دیا ہے لہٰذا یہ ممالک مسئلہ کشمیر پر سفارتی طور پر کیا کریں گے۔ نہ صرف ان میں سے زیادہ تر امریکی کیمپ میں ہیں بلکہ بھارت کے ساتھ بھی ان کے انتہائی خوشگوار سیاسی اور اقتصادی تعلقات ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواریوں نے مل کر جو کیا اس سے فلسطینی کاز کو بہت زبردست دھچکا لگا ہے۔ اس سے بڑا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مودی اور نتن یاہو کی پالیسیوں میں ذرہ برابر فرق نہیں ہے۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں بھارت کے اس معاملے میں ہمنوا ہیں، یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ بھارت نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے پر کوئی مذمتی بیان نہیں دیا، اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اگر اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے تو بھارت بھی کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ اگرچہ قیام پاکستان کے وقت ہی بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر لیا تھا لیکن اس وقت کی کانگریس کی لیڈر شپ جس میں پنڈت نہرو قابل ذکر ہیں اورغیر وابستہ ممالک جن میں چینی رہنما چوین لائی، انڈونیشیا کے صدر رسو نیکارنو پیش پیش تھے، بھارتی غاضبانہ پالیسیوں کے زبردست ناقد تھے۔ نومبر 1988ء میں بھارت نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم بھی کر لیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ یاسر عرفات مرحوم کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بھرپور حمایت کرنے سے ہچکچاتے تھے لیکن آج فلسطین کے بارے میں امریکہ، اسرائیل اور مودی کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین ہو یا مسئلہ کشمیر دونوں حق خود ارادیت کے مسائل ہیں لیکن یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے بھارت کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ جب تک نئی دہلی فلسطینیوں کی آزادی کی حمایت کرتا رہے گا۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی اور اقتصادی تعلقات سے فلسطینیوں کو کوئی سروکار نہیں ہے، اس پر فلسطینیوں نے اپنے صدر کے خوب لتے لیتے ہوئے کہا کہ یہ بیان شرمناک اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ شاید یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ بھارت اسرائیل کا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور اسرائیلی اسلحے کی سب سے بڑی مارکیٹ بھارت ہے۔ اس پس منظر میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ امریکہ، روس، بھارت، عرب ریاستیں اور اسرائیل سٹریٹجک اور اقتصادی طور پر ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ اس سارے افسوسناک معاملے کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ پاکستان یک و تنہا رہ گیا ہے۔ ایک وہ دور تھا جب پاکستان ملٹی لیٹرل طور پر فعال تھا، اس وقت ذوالفقار علی بھٹو اور آغا شاہی جیسے مدبر ہمارے خارجہ پالیسی کے کارپرداز تھے۔ دنیائے اسلام کو فلسطین و کشمیر کے لیے فعال کرنے میں پاکستان کا کلیدی رول تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود فلسطینیوں کی حمایت میں انتہائی محتاط بیان دینے پر مجبور ہیں جو انتہائی افسوسناک ہے۔ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سعودی عرب کے دورے پرہیں انہیں کشمیر کے علاوہ فلسطین کے مسئلے پر بھی سعودی عرب کے فرمانروا سے بات کرنی چاہیے۔