افشاں لطیف! تمہیں کس نے کہا تھا کہ سچ بولو۔ظلم کے خلاف آواز اٹھائو‘یتیم بچیوں کا درد اپنے دل میں محسوس کرو۔ آخر تم اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتی۔ کیوں چاہتی ہو کہ جھوٹ‘ منافقت ظلم اور بے حسی کے اس شہر میں آئینے کی طرح بکھر کر کرچی کرچی ہو جائو۔! افشاں!تمہیں چاہیے تھا کہ جب ادارے کی ایک بڑی افسر تم سے کاشانہ میں غیر قانونی بھرتیاں کروانے کے بدبودار عمل میں شریک ہونے اور مددگار بننے کا کہتی تھی تو تم بھی سارے اصول‘سارے قاعدے بند کر کے ردی کی کسی ٹوکری میں پھینک دیتی۔ قانون کی کتاب کو راکھ کر ڈالتی اور وہی کرتی جو افسر اعلیٰ کا حکم تھا۔ یہ سراسر تمہارا ہی قصور ہے کہ تم نے سوال کیا۔ تم نے اعتراض کیا کہ خاکروب اور میل اٹینڈنٹ کی خالی اسامیوں کا اشتہار دے کر یتیم بچیوں کے ادارے میں ایسے مشکوک لوگوں کو نوکریاں کیوں دی جا رہی ہیں جن کے پاس عملی طور پر ڈائریکٹر کے عہدے کی مراعات موجود ہیں۔ تمہیں چاہیے تھا کہ اس کھلے جھوٹ پر خاموش رہتی، تم سے کس نے کہا تھا کہ کاشانہ کی لاوارث‘ بے سہارا اور یتیم بچیوں کے لئے اپنے دل میں درد محسوس کرو۔ان کی عزتوں اور حُرمت کو عزیز رکھو۔ ان کی بھوک اور پیاس کا احساس کرو یہاں تک کہ جب ستاون یتیم بچیوں کے کھانے پینے کے سرکاری فنڈ بند کر دیے گئے تو تم ان یتیموں کا پیٹ بھرنے کے لئے اپنی گاڑی تک فروخت کر دو اور ان پیسوں سے غریب غربا کی لاوارث لڑکیوں کا پیٹ بھرو، تمہارا سب سے سنگین جرم یہ ہے کہ تم نے یتیم بچیوں کو ہی ’’قابل عزت‘‘ سمجھا۔ کاشانہ کی سپرنٹنڈنٹ ہونے کے ناتے تم نے خود کو ان لاوارثوں کا نگہبان جانا اور ان کی عزتوں کے آبگینوں کی حفاظت کے لئے تم طاقتوروں سے ٹکرا گئی۔اور ان طاقتوروں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی جو یتیم بچیوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے کسی کوڑے دان میں پھینکنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ ظالموں اور طاقتوروں کے خلاف تم نے آواز اٹھاتے وقت ذرا بھی نہ سوچا کہ یہ پتھروں کا شہر ہے اور تم آئینے کی مثال ہو۔اس ایک سال کے عرصے میں جس طرح تم انصاف کے لئے دربدر پھر رہی ہو اور جو نتائج تم بھگت رہی ہم جیسے تو اسے سوچ کر ہی کانپ جائیں۔ڈرانا‘ دھمکانا، منہ بند رکھنے کے لئے پرکشش آفرز کے ڈھیر۔ تم نے ایک نہیں مانی تو یزید کے پیروکاروں نے تمہارے گھر کا پانی بند کیا۔ گیس کے کنکشن کو کاٹ دیا۔ تم پھر بھی نہیں مانی سڑکوں پر اکیلی احتجاج کرتی رہی تو تمہیں سبق سکھانے کے لئے تمہارے گھر کو آگ لگا دی گئی۔ سبق سکھانے کے لئے آگ لگانے کی روایت ظلم کی اس نگری میں بہت پرانی ہے۔ ہولناک مثالیں موجود ہیں سات آٹھ سال پہلے بلدیہ ٹائون فیکٹری کو بھی ظالموں نے آگ لگا کر ڈھائی سو زندہ انسانوں کو جلا دیا تھا۔ تو افشاں لطیف‘ تمہارے گھر کو بھی ظلم کی اس روایت اسی روایت کے تسلسل میں آگ لگائی گئی۔تباہی کے دھانے پر کھڑا بدقسمت سماج ہے، یہ جہاں انصاف ملنے کی کوئی روایت جڑ نہیں پکڑتی۔ یہاں دیانت اور درد دل کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہاں صرف ظلم اور تاریکی پنپتی ہے یہاں جھوٹ اور ظلم بچے جنتے اور اپنا خاندان بڑھاتے ہیں، یہاں سچائی کو بانجھ رکھا جاتا ہے۔ سچائی کی زبان چھین لی جاتی ہے۔ سچائی کے ہاتھ پیر کاٹ دیے جاتے ہیں سچائی کو اندھا کر دیا جاتا ہے سچائی ایک کونے میں پڑی سسکتی رہتی ہے۔افشاں لطیف!کیا خیال ہے تمہارا اگر اس شہر ناپرساں میں سچائی کی۔ درد دل کی۔ دیانت کی اور بارِ امانت کی ذرا سی بھی وقعت ہوتی‘ ذرا سی ہی اہمیت ہوتی تو سرکاری یتیم خانے سے سرکار کی سرپرستی میں ستاون(57)یتیم لڑکیوں کو پراسرار طور پر غائب کر دیے جانے پر ہنگامہ نہ کھڑا ہو جاتا۔ 14مارچ سے سرکاری یتیم خانہ کیوں خالی پڑا ہے۔ کوئی تو تمہارے سوال کو قابل سماعت سمجھتا۔ 10اپریل سے تمہارے گیس کنکشن اور پانی کی سپلائی کس کے حکم پر اور کیوں بند کر دی گئی اور اب 12جولائی کو تمہارے گھر کو کس نے اور کیوں رات کی تاریکی میں آگ لگائی۔؟ تمہارے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں کے سامنا جلتا دیکھا۔ ان کے ننھے ذہنوں پر ظلم اور ناانصافی کے کیسے کیسے بھیانک منظر نقش ہو رہے ہیں۔ ہم کشمیر اور شام کے مظلوم بچوں کے لئے آواز اٹھاتے ہیں۔ کوئی ہے جو ان بچوں کے حق کے لئے بھی آواز اٹھائے جو تین مہینوں سے پانی گیس اور بجلی سے محروم ہیں اور اب ان کا گھر ان کے سامنے راکھ کر دیا گیا۔ اس لئے کہ ان کی ماں نے یتیم بچیوں کی ذمہ داری کو بار امانت سمجھا۔ ان کے ساتھ جنسی ہراسگی کے ظلم پر آواز اٹھائی۔ جھوٹ اور بددیانتی کے پروردہ معاشرے میں سچ بولنے سے بڑا جرم اور کوئی نہیں۔افشاں لطیف سچ بولنے کی سزا بھگت رہی ہے۔ لیکن آخر کب تک ٹالسٹائی کا لازوال فقرہ یاد آتا ہے۔ God sees the truth but wait طاقت وروں کے مقابل افشاں لطیف ڈٹی ہوئی ہے۔لیکن طاقت وروں کی طاقت بھی آخر کب تک۔! جاہ وجلال دام و درہم اور کتنی دیر تم اور کتنی دیر ہو ہم اور کتنی دیر