افغانستان میں جاری 42 سالہ طویل خانہ جنگی نے افغانوں کو تو شاید نہ تھکایا ہو لیکن پُوری دنیا کے کڑاکے نکال دیے ہیں۔گزشتہ برس ہونیوالے دوہا معاہدہ کی ناکامی کے بعد اب امریکہ نے افغانستان میں قیامِ امن کیلئے ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے جس پر اِن دِنوں سفارتکاری زوروںپر ہے۔ پاکستان کی فوجی قیادت افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے میں خاصی سرگرم ہے۔ چند روز پہلے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بحرین کا دورہ کیا جہاںافغان امن عمل پر ایک اجلاس منعقد کیا گیا تھا ۔ اٹھارہ مارچ کورُوس نے ماسکو میں افغانستان پرا یک کانفرنس کا اہتمام کیا ہے جس میںچین ‘ امریکہ ‘ پاکستان‘ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ گزشتہ برس فروری میں قطر کے دارالحکومت دوہا میںامریکہ اور افغانستان کے طالبان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق امریکی فوجیں افغانستان سے نکلنا شروع ہوگئی تھیں اور اس سال یکم مئی تک اُنکا مکمل انخلا ہونا تھا۔ معاہدہ کی اور بہت سی شقیں تھیں جن میں سب سے اہم افغانستان کی مختلف قوتوں اور سیاسی فریقوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام بھی شامل تھا لیکن یہ کام نہیں ہو سکا ۔ طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان جنگ بدستور جاری ہے۔ ان حالات میں امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے دوہا میں ہونیوالے سمجھوتہ کی جگہ ایک نیا امن منصوبہ پیش کیا ہے جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ پہلے کابل میںتمام فریقوں پر مشتمل عبوری حکومت قائم کی جائے۔ اسکے بعد ترکی میں تمام افغان فریقوں کی بین الاقوامی کانفرنس بلائی جائے گی تاکہ وہ کسی مستقل مفاہمتی دستور پر متفق ہوسکیں۔ اس کانفرنس کو اقوام متحدہ کی چھتری تلے منعقد کیا جائیگا ۔ اس میںامریکہ کے ساتھ ساتھ افغانستان کے قریبی ممالک پاکستان‘ ایران‘ بھارت‘ روس اور چین بھی شرکت کریں گے تاکہ وہ کسی معاہدہ پر عمل درآمد کے لیے ضامن بن سکیں۔ امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکِن نے افغان صدر اشرف غنی کو ایک خط لکھا ہے جس میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام کی فوری ضرورت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ خط میں انہوں نے اشرف غنی کو اس خطرہ سے آگاہ کیا ہے کہ امریکی فوجوں کے مکمل انخلاء کے بعدطالبان بہت تیزی سے مزید علاقوں پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ کابل شہر کی طرف ہے جس پر امریکی افواج کے نکل جانے کے بعد قبضہ کرنا طالبان کیلئے مشکل نہیں ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ اشرف غنی اور انکے ساتھیوں کو کچھ بھی نہ ملے اور بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہو وہ طالبان سے مصالحتی کلیہ طے کرلیں ۔ بائیڈن انتظامیہ طالبان پر بھی زور دے رہی ہے کہ وہ ایسے آئین پر اتفاق کرلیں جس میں اسلامی اقدار کی پاسداری کے ساتھ ساتھ اقلیتوں‘ عورتوں کے حقوق اورسیاسی آزادیوں کو تحفظ دیا جائے۔ نئے امریکی فارمولے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اشرف غنی کے دن پورے ہوچکے۔ انہیں اقتدر سے الگ ہونا پڑے گا۔ افغانستان میں امن پورے خطہ اور دنیا بھر کیلئے اہمیت کا حامل ہے۔ خیال یہ ہے کہ چونکہ عالمی برادری کی مالی امداد کے بغیر افغانستان کی معیشت اور حکومت کا کاروبار چل نہیں سکتے اس لئے طالبان پر مشتمل حکومت کو اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کی موجودگی میںکیے گئے سمجھوتہ پرعمل کرناہوگا۔ وہ اپنے مخالفین کا اس طرح سے قتلِ عام یا خاتمہ نہیں کر سکیں گے جیسا انہوں نے انیس سو نوّے کی دہائی میں کیا تھا۔ اسی طرح پاکستانی ریاست کا بھی طالبان پر اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے ۔ دوسری طرف‘طالبان مخالف سیاسی قوتوں میں اور کابل کی اشرافیہ ‘ تعلیم یافتہ طبقہ میں بھارتی لابی خاصی مضبوط ہے۔بھارت کی افغانستان میںسینکڑوں ارب روپے کی سرمایہ کاری ہے‘وسیع باہمی تجارت ہے۔کابل میں جو بھی گروہ حکومت میں آئے وہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کریگا۔ البتہ پاکستا ن اور بھارت کے افغانستان میںمفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ بھارتی حکمرانوں نے افغانستان میں اپنے مراکز قائم کرکے اور افغان انٹیلی جنس ادارہ کی مدد سے پاکستان میںدہشتگردی پھیلائی ہے۔ بلوچستان ‘پختون علاقوں میں علیحدگی پسند تحریکوں اور فرقہ پرست تنظیموںکو امداد اورمسلح کارروائیوں کی تربیت دی ہے تاکہ اُن کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کیا جاسکے اور اسکی معیشت کو تباہ کیا جا سکے۔ پاکستان کی اوّلین کوشش ہوگی کہ کابل میںجو بھی عبوری حکومت بنے اس سے یہ ضمانت لی جائے کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیگی۔ روس کا بڑا خدشہ یہ ہے کہ افغانستان میں داعش کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں جو وسط ایشیا اور روس کے اندر مسلمان آبادی کے علاقوں جیسے چیچنیا تک امن امان کا مسئلہ پیدا کرسکتی ہے ۔ روس کو خطرہ ہے کہ امریکہ اور یورپ داعش کو اسے غیر مستحکم کرنے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ روس مستقبل کی حکومت سے تعاون پر مبنی تعلقات استوار کرنا چاہتاہے تاکہ افغانستان داعش کا مرکز نہ بن جائے۔چین کو مشرقی ترکمانستان یا سنکیانگ میں شدت پسند تنظیموں سے وابستہ افراد سے خطرات لاحق ہیں۔ امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن نے اس بارے میںخاصا فیصلہ کُن اقدام اٹھایا ہے۔ اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کوکشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فوری جنگ بندی پر آمادہ کیا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی پُوری توجہ افغانستان میں مصالحت کی کامیابی اور امن کے قیام پر مرکوز ہو ۔ اسے مشرق میں بھارتی سرحد کی فکر نہ رہے۔ امریکہ بیس سال سے افغان جنگ لڑ رہا ہے جو اسکے لیے ایک بڑا مالی‘ نفسیاتی بوجھ اور دردِ سربن چکی ہے۔امریکہ مجبور ہوگیا ہے کہ تنہا پرواز چھوڑ کر بین الاقوامی برادری اور دوسری بڑی طاقتوںکی مدد سے اس جنگ سے اپنی جان چھڑوائے۔افغان خانہ جنگی کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچا ہے۔ اس سے پہلے کہ عالمی برادری کی توجہ افغانستان سے ہٹے ہمیں اس موقع سے فائدہ اُٹھا نا ہوگا۔