افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور تشدد کے معاملہ پر اسلام آباد کے تھانے کوہسار میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ دوسری طرف کابل انتظامیہ نے اسلام آباد میں موجود اپنے سفیرکو واپس بلا لیا ہے۔امریکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں رخنہ ڈالنے کے لئے کچھ بین الاقوامی قوتیں متحرک ہو گئی ہیں۔ بدقسمتی سے افغان حکومت بھی اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہی ہے ایسا نہ ہوتا تو افغانستان کے شمالی سرحدی علاقوں میں طالبان کے متحرک ہونے کے بعد افغان نائب صدر امر اللہ صالح پاکستان پر طالبان کی حمایت کا الزام نہ لگاتے، یہی نہیں افغان صدر نے پاکستان سے دس ہزار جنگجو داخل ہونے کا الزام بھی لگایا حالانکہ پاکستان سرحد پر خاردار باڑ لگا کر سرحد پر آمد و رفت کی کڑی نگرانی کر رہا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس نازک صورتحال میں افغان سفیر کی بیٹی کا ٹیکسی میں سفر ،ڈرامائی انداز میں اغوا ہونا اور خود ہی دامن کوہ پارک میں پہنچ جانا مختلف سوالات کو جنم دیتاہے ۔ معاملہ میں بین الاقوامی سازش کی بو بھی آ رہی ہے ۔ وزیر داخلہ کا مبینہ اغوا کو را کا ایجنڈا قرار دینا غلط نہیں کیونکہ فیٹف کے اجلاس کے دوران لاہور میں دھماکے کی سازش بے نقاب ہو چکی ہے۔ ان حالات میں افغان حکومت کا سفیر واپس بلانے کا فیصلہ اس لیے بھی مناسب نہیں کیونکہ سفیر کی موجودگی میں معاملہ کی شفاف تحقیقات ہو سکتی ہیں اور دونوں ممالک کے تعلقات خراب کرنے کی سازش کو بہتر انداز میں بے نقاب کیا جاسکتا ہے ۔