افغان امن کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کے شہر ابوظہبی میں حالیہ مذاکرات کی خبریں سن کر مجھے علامہ اقبالؒ یاد آئے ۔ آج سے کئی دہائیاں قبل مشرق کے اس درویش ِ صفت شاعر نے اپنے ایک فارسی شعر میں پیش گوئی کی تھی کہ افغانستان ایشیاء کا دل ہے اور یہ خطہ جب تک شورش کی زد میںہو گا تب تک پورے ایشیاء میں امن اور خوشحالی کی حالت مخدوش رہے گی۔ آسیا یک پیکر آب وگل است ملت افغان درآں پیکر دل است از کُشاد او کشاد آسیا از فساد او فساد آسیا اقبال کی پیش گوئی سچی ثابت ہوئی اور افغانستان میں چار عشروں سے پیہم شورش کی وجہ سے آج پورے ایشیاء کا امن دگرگوں ہے ۔یہ خطہ نائن الیون واقعے سے پہلے بھی اپنوں ، ہمسایوں اورغاصب قوتوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے آگ اگل رہا تھا اور نائن الیون کے بعد بھی یہاں پر آگ وکشت کا بھیانک کھیل بدستور جاری ہے ۔نائن الیون کا واقعہ آج سے سترہ برس پہلے امریکہ میں پیش آیاتھاجس کے بعد امریکہ کو افغانستان میں اپنی طاقت آزمائی اور پنجے گاڑنے کا بہانہ ملا ۔ ۔ اس عرصے میں بیت جانے والا ہر دن بے گناہ افغانوں کی شہادتوں کا بھی شاہد رہاہے اوراُن کے معاشی زوال، گھروں کی مسماری اور تنزلی کابھی ۔گوکہ اس طویل عرصے کے دوران گزرنے والا ہردن افغانوں کیلئے نائن الیون ثابت ہوتارہاہے ۔سوال یہ ہے کہ اس سترہ سالہ طویل جنگ کے دوران امریکہ کو کیا ملا ، افغان طالبان نے کیا حاصل کیا اور خود کوامریکی تعاون کی لالچ میں مبتلاکیے افغان حکومت کوآخر کیا ملا ؟ بلاشبہ یہ ایک مشکل سوال ہے جس کے جواب میں یقینا ہر اسٹیک ہولڈر اپنی فتح اور کامیابی کے کمزور دلائل پیش کرسکتاہے لیکن میرے نزدیک یہ سترہ سال ہر حوالے سے افغانوں کیلئے غضب کا قیامت خیزاور بدقسمت عرصہ ثابت ہوا ۔ امریکہ نے آتے ہی بڑھک مار دی تھی کہ مہینوں میںنہیں بلکہ چندہفتوں کے اندر وہ طالبان کا صفایاکرکے افغانستان کو جنت نظیر وطن میں تبدیل کرے گا۔ افغان طالبان کا دعویٰ تھا کہ ایک مرتبہ افغانستان پر اپنا پرچم لہرانے والوں اور گوریلا جنگی چالوں کے ماہرمجاہدین کیلئے دوبارہ تخت کابل حاصل کرناکونسی مشکل بات ہے ؟اسی طرح افغان حکومت کو امریکہ کی دوستی پر اتنا ناز تھا کہ گویا امریکہ ہی دنیا میں ان کا واحد نجات دہندہ ہے اور بس ۔ پھر چشم ِفلک اور فلک کی چھت کے نیچے رہنے والی دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ تو امریکہ نے سترہ سال کے طویل عرصے میں طالبان کا صفایا کرکے افغان حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر کردیا اورنہ ہی طالبان کو دوبارہ تخت کابل حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ طویل ترین بدامنی ، قتل وغارت ، بم دھماکے ،انفراسٹرکچر کی تباہی ،معاشی زبوں حالی جیسے ناقابل تلافی نقصانات افغانستان کے ان تمام اسٹیک ہولڈرز کی حماقتوں اور ہٹ دھرمیوںکے نتائج تھے جسے انہوں نے پچھلے سترہ سالوں میں کبھی سنجیدہ نہیں لیا۔ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود ِپشیماں کا پشیماں ہونا بہرکیف دیر آید درست آید کے مصداق اب کی بار ایک مرتبہ پھر افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے امریکہ اور افغان طالبان کے بیچ مذاکرات متحدہ عرب امارات میں چل رہے ہیں ۔ایسے مذاکرات ماضی میں بھی ہوتے رہے تاہم ماضی کے مقابلے میںحالیہ ہونے والے مذاکرات سے افغانستان میں بھی اور پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر لوگو ں نے توقعات وابستہ کررکھے ہیں اور امید بھی یہی کی جاتی ہے کہ حالیہ مذاکرات پورے خطے کے امن کیلئے پیش خیمہ ثابت ہونگے۔ ان مذاکرات کی کامیابی سے توقع اس لیے بھی زیادہ کی جاسکتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پرکچھ تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ افپاک Afgh-Pak) )خطے میں بھی کئی تبدیلیاں آئی ہیں۔ مثال کے طورپربین الاقوامی سطح پر امریکہ کی قیادت اب ٹرمپ جیسے لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے جو کہ باراک اوبامہ اور ان کے پیشرووں کے مقابلے میں فی الفور اور ٹھوس تبدیلی کا خواہاں دکھائی دیتا ہے۔دوسری طرف یہاں پاکستان میں بھی اب سویلین اور فوجی قیادت وہی نہیں رہی ہے جو ایک زمانے میں افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ دیکھناچاہتی تھی ۔ اب کی بار یہاں فوج کی کمان ماضی کے طالع آزماجرنیلوں کی بجائے جنرل قمر باجوہ جیسے مثبت سوچ رکھنے والوں اور تبدیلی کے خواہاں فوجی کمانڈروںکے ہاتھوں میں ہے ۔اسی طرح یہاں کی سویلین حکومت کو بھی آصف زرداری اور نواز شریف (یا انکے پیشرووں ) کی بجائے عمران خان جیسے لوگ لیڈ کررہے ہیں جنہوں نے منتخب ہوتے ہی اپنی پہلی تقریر میں افغان امن کا خصوصی طور پرذکر کیاتھا۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ مذاکرات کے نتیجے میں گزشتہ دنوں افغان صدر کے خصوصی نمائندے اور افغان امن کونسل کے رئیس عمرداودزی نے برملا اعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میںواضح تبدیلی آئی ہے جسے وہ خوش آئندقرار دیتے ہیں‘‘۔ دوسری طرف صدارتی کرسی پر بھی اشرف غنی کی صورت میں اس وقت ایک ایسا صدر براجمان ہے جو سال میں آنے والے امن کو مہینے اور مہینے میں آنے والے امن و خوشحالی کو راتوں رات لانے کیلئے بے تاب نظرآتے ہیں۔اسی تناظر میں دیکھا جائے توافغان طالبان کے رویے میں بھی ماضی کے مقابلے میں کافی لچک دیکھنے کو ملتی ہے ۔ افغان امن کے حوالے سے طالبان ماضی میںجب بھی مذاکراتی عمل میں شریک ہوتے تو اپنے چند نمائندوں کو یہ ٹاسک دیاکرتے تھے لیکن اس مرتبہ انہوںنے اپنی عسکری اورسیاسی ونگ کے چاراہم نمائندوں ملا امیرمتقی ،قاری یحییٰ، ملاعباس اخوندزادہ اور ملامحب اللہ حماس کو بھی اس عمل میں شامل کرلیاہے ۔ خدا کرے کہ اس مبارک موقع کواب کی بار تمام اسٹیک ہولڈرز سنجیدگی سے لیکرافغانستان اور خطے میں پائیدار امن کوہرقیمت پریقینی بنائیں۔