افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرت کادوسردور اسلام آباد میں کرانے پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ پاکستان کا روز اول سے یہ اصولی موقف رہا ہے کہ افغانستان میں امن تمام سٹیک ہولڈرز کی افغان امور میں شراکت سے مشروط ہے۔ بدقسمتی سے امریکہ پاکستان کے اس پر خلوص مشورے توجہ کے بجائے پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام دھرتا رہا ہے۔ افغانستان کی لاحاصل جنگ میں 3ٹریلین ڈالر اور ہزاروں فوجی جھونکنے کے بعد امریکی حکام کو یہ احساس ہوا کیا ہے کہ افغانستان کی جنگ عسکری ذرائع سے جیتنا ممکن نہیں تو ٹرمپ انتظامیہ افغان طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالنے پر تیار ہوئی ہے۔ پاکستان اور برادر مسلم ممالک قطر اور سعودی عرب کے تعاون سے دوحا میں امریکی حکام اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا ایک دور ہوا مگر گزشتہ دنوں افغان طالبان نے امریکہ بالخصوص افغان حکومت کے رویہ کے بارے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مزید بات چیت سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد امریکہ کے افغان امور کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد سمیت متعدد امریکی حکام نے اسلام آباد کا رخ کیا تو پاکستان کی کوششوں سے افغان طالبان نے اسلام آباد میں مذاکرات پر اتفاق کیا ہے جو افغان امن میں پاکستان کی پرخلوص کوششوں کا ثمر ہے ۔ اب طالبان نے امریکہ سے معاملہ کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ فریقین خلوص دل سے افغان امن میںبھرپور تعاون کریں گے کیونکہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطہ کی ترقی وخوشحالی کا انحصار بھی مستحکم اور پرامن افغانستان پر ہے۔