افغان حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ پاک فضائیہ طالبان کو فضائی مدد دے رہی ہے۔افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح کا دوسرا الزام یہ ہے کہ پاکستان سے دس ہزار جنگجو افغانستان میں داخل ہوئے ہیں جو افغان فورسز کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔افغان الزامات کا پاکستان نے جواب دیا ہے۔ دفتر خارجہ نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں بگڑتی ہوئی صورت حال کے باعث اپنے علاقے میں ضروری اقدامات کئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان دیگر اہم حکومتی و ریاستی حکام کے ہمراہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں وسطی و جنوبی ایشیا کانفرنس میں شریک ہوئے۔ کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی نے جب بے بنیاد الزامات عاید کئے تو وزیر اعظم نے ایسے الزامات کو پاکستان سے ناانصافی قرار دیا۔ وزیر اعظم نے افغان صدر کو یاد دلایا کہ پاکستان نے کس طرح افغانستان میں قیام امن کی خاطر اپنا کردار ذمہ دارانہ انداز میں نبھایا۔وزیر اعظم نے ناصرف برجستہ افغان صدر اشرف غنی کو جواب دیا بلکہ بھارتی میڈیا نے جب ان سے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے سوال کیا تو وزیر اعظم نے آر ایس ایس کی دہشت گردانہ پالیسیوں کو تعلقات کی بحالی میں رکاوٹ قرار دیا۔ افغانستان کا معاملہ خاصا پیچیدہ رہا ہے‘ یہ سرزمین زرعی اور صنعتی اعتبار سے کسی فائدے کی نہیں‘ سنگلاخ اور پتھریلے علاقے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے یہ تجارتی قافلوں کی گزرگاہ رہی ہے۔ افغانستان میں شامل آدھے علاقے صدیوں تک ہندوستان کی مغل سلطنت کا حصہ رہے‘باقی نصف علاقے ایرانی سلطنت میں شامل تھے۔ انیسویں صدی میں افغانستان الگ حیثیت سے ابھرنے لگا۔دو ڈھائی سو سال کے دوران افغان قوم اپنی ریاست اور سماج کو جدت نہ دے سکی۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک بڑی حد تک جدید روایات اور ٹیکنالوجی کو اپنے ہاں متعارف کرا چکے ہیں۔سیاسی نظام اور جمہوری ادارے نشوو نما پا رہے ہیں‘ روزگار کی سہولیات پر توجہ دی جا رہی ہے لیکن افغانستان آج بھی اٹھارویں صدی عیسوی کی پسماندگی کا نمونہ ہے۔ اس کی وجہ افغانستان میں بڑی طاقتوں کی مداخلت اور اس کی سرزمین کو خطے میں تنازعات بھڑکانے کے لئے استعمال کرنے کی پالیسی رہی ہے۔ 1970ء کے عشرے میں سوویت افواج جب افغانستان میں داخل ہوئیں تو امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک کو کمیونزم سے خوفزدہ کر کے افغانستان میں کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا‘پاکستان اور افغانستان نے جہاد میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جہاد کے نتیجے میں سوویت یونین منہدم ہوا۔ کمیونزم کا خطرہ ٹل گیا تو افغانوں کو موقع ملا کہ وہ اپنے سیاسی و سماجی ڈھانچے کی تعمیر نو کر سکیں۔تعمیری سرگرمیوں کی بجائے افغان عسکریت پسند گروپوں نے ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیا۔ کئی سال تک خانہ جنگی کا یہ سلسلہ اس وقت رکا جب پاکستان کے مدارس سے فارغ التحصیل ملا محمد عمر کی قیادت میں طالبان نے ایک منظم قوت کے طور پر پیشقدمی کی۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے افغانستان میں عسکریت پسند دھڑوں کے مابین امن معاہدہ کرانے کیلئے کوششیں کیں‘ پاکستان نے طالبان کی حمایت اس لئے کی کہ وہ کسی دھڑے بندی سے ماورا ہو کر افغانستان میں استحکام چاہتا تھا۔ نائن الیون کے بعد افغانستان سے پاکستان کا کردار محدود سے محدود تر کیا گیا۔ افغانستان میں بدامنی اور ہمسایہ ممالک سے خراب تعلقات کی بنیاد ان حکمرانوں نے رکھی جنہیں امریکہ نے عوام کی منشا کے بنا حکومت سونپی‘ حامد کرزئی کے دور میں افغانستان بھارت کی سرزمین معلوم ہوتا تھا۔ حامد کرزئی پاکستان کے خلاف بیانات جاری کرتے۔ ان بیانات کا لب لباب یہ ہوتا کہ افغانستان میں ہر خرابی کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی کو موقع دیا گیا۔اشرف غنی ایک مشکوک انتخابی عمل سے حکمران بنے‘ ان کے انتخاب کو عبداللہ عبداللہ سمیت کئی حکومتی عہدیدار تسلیم نہیں کرتے۔ عوام کے مینڈیٹ سے محروم افغان حکومت نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان میں تخریبی عناصر کی حوصلہ افزائی کی۔ پاکستان نے جب کبھی دہشت گردانہ وارداتوں میں افغان سرزمین کے استعمال کی شکایت کی افغان حکومت نے اسے نظرانداز کر دیا۔ پاکستان کے خدشات پر امریکی کمانڈروں کا طرز عمل بھی غیر سنجیدہ رہا۔ افغان صدر اور ان کے رفقا اس بات کو فراموش کر رہے ہیں کہ پنتالیس سال کے بعد غیر ملکی افواج کا انخلاہونے کی ایک وجہ پاکستان ہے‘ جس نے دو ٹوک الفاظ میں امریکہ کو کہا کہ وہ افغانوں پر بمباری کے لئے اڈے نہیں دے سکتا۔ پاکستان ہر فورم پر یہ موقف پیش کرتا رہا ہے کہ افغان تنازع کا فوجی حل ممکن نہیں۔ پاکستان نے افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے طویل عرصہ قربانیاں دی ہیں۔ان قربانیوں اور خدمات کا اعتراف افغانستان کے عوام کر رہے ہیں۔ افغان حکومت عوام سے کٹ چکی ہے‘ ملک کا 85فیصد علاقہ طالبان کے قابو میں ہے۔ تمام ہمسایہ ممالک مداخلت سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ امریکہ ‘ بھارت اور افغان حکومت کی خواہش کے باوجود کوئی ہمسایہ ریاست غیر ملکی افواج کو اڈے فراہم کرنے پر آمادہ نہیں۔افغان حکومت جو کچھ ماضی میں بوتی رہی ہے وہ فصل تیار ہو چکی ہے۔ افغان طالبان سے بروقت پاور شیئرنگ منصوبے پر مذاکرات کر لئے جاتے تو آج اشرف غنی اور ان کے رفقا خدشات اور عدم تحفظ کا شکار نہ ہوتے۔