سقوط کابل کو اڈھائی مہینے سے زیادہ عرصہ بیت چکا، لیکن طالبان کی قیادت میں بننے والی حکومت کی عالمی تنہائی بدستور موجود ہے۔مغربی دنیا تو کیا، پاکستان ،ایران ، تاجکستان اور ازبکستان جیسے ہمسایہ اسلامی ممالک نے بھی طالبان حکومت کو تاحال تسلیم نہیں کیاہے ۔ یوں سمجھیے کہ اس حوالے سے عالمی قوتیں دو بلاکوں میں تقسیم ہیں۔پہلاامریکی جبکہ دوسراچائنا پلس رشین بلاک ۔اول الذکر بلاک میں امریکہ کے علاوہ یورپی یونین اور برطانیہ جبکہ ثانی الذکر میں روس ، چین ، پاکستان ، ایران اوروسط ایشیائی ریاستیں شامل ہیں۔امریکی بلاک کا سرغنہ امریکہ بہادر ہے اورامریکہ جب بھی طالبان کے بارے میں نرمی دکھائی گی، تواس کے دیگر حواری بھی دیر نہیں لگائیں گے۔جبکہ دوسرے بلاک میںشامل ملکوں کی پالیسی طالبان کے بارے میں امریکہ سے مختلف ہے۔ان ملکوں میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے خدشات ہیں اور جب تک طالبان ان سب کو مطمئن نہیں کرے گا،تب تک یہ طالبان حکومت کوتسلیم کرنے کی جلدی نہیں کرے گا ۔اس بلاک میں ایک حوالے سے چین اورروس کا کردار دیگر ملکوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتاہے کیٍونکہ یہی دو ممالک خطے میں امریکہ کے بڑے حریف سمجھے جاتے ہیں،یوں طالبان حکومت سے ان کے تعلقات پاکستان ، ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں کیلئے راہ ہموار کرسکتاہے ۔شروع میںروس اور چین دونوںطالبان سے تعلقات استوار کرنے کے لئے خاصے مشتاق دکھائی دیتے تھے۔بعد میںچین نے قدرے خاموش اختیار کی اور ساتھ ساتھ طالبان کی حکومت سے مالی تعاون بھی جاری رکھا۔چین کے مقابلے میں روس طالبان کی طرف قدرے زیادہ میلان رکھتے تھے بلکہ طالبان کی تعریفیںتک کرنے لگے۔ سقوطِ کابل کے ایک روز بعد روسی سفیر دمتری زیرنوف کا دعویٰ سامنے آیاکہ ’’روس کو افغانستان میں تشدد اور جوابی کاروائی کے کوئی آثار نہیں ملے ہیںــ۔انہی دنوں میں روسی وزیرخارجہ نے سابق حکومت کے مقابلے میں طالبان کی حکومت کو بہتر قرار دیاتھا ۔درمیان میںروس کا رویہ مختصر مدت کیلئے اس وقت تبدیل ہوا جب داعش نے آٹھ اکتوبر کو قندوز اور پندرہ اکتوبرکوقندھار میں نماز جمعہ کے دوران دو خونریز حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جس میں شیعہ برادری کے ڈیڑھ سو کے قریب افراد شہید ہوئے تھے۔اپنے بیان میںماسکو نے طالبان کو داعش کے خلاف بے بس قراردیتے ہوئے افغانستان میں شدت پسند ی بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیاتھا ۔یہاں یہ بتاتاچلوں کہ روس کو افغانستان کی طرف سے دوطرح کے خدشات لاحق ہے ۔پہلا یہ کہ کیا طالبان داعش کو خطے میں کاونٹر کرسکیں گے ؟دوسرا یہ کہ کیا طالبان اس پوزیشن میں تو نہیں ہیں کہ کہیں وسط ایشیائی ریاستوں (جہاں پہلے سے ہی اسلام پسندوں کے ابھرنے کا خدشہ بدستور موجودہے)کے لوگوں تک اپنے مخصوص نظریات منتقل کریں؟شاید اسی خوف ہی کا نتیجہ ہے کہ روس تاجکستان حکومت کے ساتھ اگست سے افغانستان اور تاجکستان کے سرحد پر فوجی مشقیں بھی کررہاہے۔ د س دن پہلے ـ’’ماسکو فارمیٹ‘‘ کے نام سے کانفرنس منعقد کرکے روس نے پھرسے طالبان کے بارے لچک دکھانا شروع کیاہے۔ماسکوفارمیٹ میں طالبان کو افغانستان میں ایک نئی حقیقت قرار دیاگیااورساتھ ساتھ طالبان سے جامع حکومت کی تشکیل اور افغان سرزمیں کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کا مطالبہ بھی کیاگیا۔ اگلے روز روسی صدر پیوٹن نے بین الاقوامی والدائی ڈکش کلب کے ایک اجلاس میں پورے افغانستان پر طالبان کا کنٹرول کا اعتراف کیااوریہ عندیہ دیا کہــ’’ روس بشمول دیگر ممالک طالبان کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکالنے کے فیصلے تک نزدیک پہنچ رہے ہیںــ‘‘۔شروع میں ایران بھی طالبان کی امارت اسلامیہ کاپرجوش حامی تھاتاہم بعدمیں طالبان کے عبوری کابینہ میںاس کے منظور نظر افراد کی عدم شمولیت، پنجشیر آپریشن اوروہاں کے لوگوں کے عدم تحفظ پرتہران کو تحفظات پیدا ہوئے ۔ ابھی تین روز پہلے ایرانی نے سے ایک کانفرنس بھی منعقد کیاجس میں خطے کے اکثرملکوں کے نمائندے تو شامل ہوئے لیکن طالبان مدعونہیں تھے ۔اس حوالے سے چینی حکومت کامعاملہ بھی روس جیسا ہے کہ اٖفغان سرزمیں اس کے خلاف استعمال نہ ہو۔ جبکہ پاکستان اس خطے میں وہ واحد ملک ہے جس کاکسی بھی دوسرے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں افغانستان سے زیادہ علاقہ رہاہے۔ طالبان پر اگرچہ ماضی کی طرح اس کا اثر ورسوخ باقی نہیں رہا،تاہم اس کی رائے اور کچھ مطالبات کواب بھی ترجیح دی جاتی ہے ۔پاکستان اپنی حالیہ پوزیشن کی وجہ سے اب کی بارکچھ زیادہ محتاط ہے، اسی لئے طالبان حکومت کوتسلیم کرنے کا مسئلہ اس نے روس ، چین اور ایران جیسے ملکوں کی باہمی مشاورت سے نتھی کردیاہے۔مختصر یہ کہ طالبان ثانی الذکر بلاک سے خود کو اس وقت تسلیم کرپائیں گے جب وہ افغان سرزمیں سے عسکریت پسندوں کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں گے ۔یعنی داعش اور ٹی ٹی پی کی سرکوبی، اور اپنی حکومت میں تاجک، ازبک اور ہزارہ کو حصہ بقدر جثہ حصہ دینے کو یقینی بنائیں گے۔ طالبان کے بارے میں ثانی الذکر بلاک یعنی امریکہ کے مسئلے کا زیادہ تر انانیت اوراجارہ داری والاہے۔ دو دہائیوں تک براہ راست افغانستان میں داخل رہ جانے والا امریکہ اس ملک کے معاملات میں بدستور ٹانگ اڑا رہاہے ۔ افغانوں کے ساڑھے نو ارب ڈالرز کے بیرونی اثاثوں کو روک کر ملک میں انسانی بحران پیدا کرنا امریکہ کے ہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں جبکہ طالبان کابینہ میں خواتین کی عدم شمولیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے۔ایک مہینے پہلے امریکی حکومت کا دعویٰ تھا کہ القاعدہ اور داعش اگلے دوسال تک امریکہ اور دیگر مغربی ممالک پر حملے کرسکتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے بارے میں نرمی برتنااور خواتین پر تعلیم کے دروازے کھولناوغیرہ سب وہ ناگزیرامور ہیں، جسے عملی جامہ پہنا ئے بغیر طالبان اپنی حکومت کو دنیا سے منوانہیں سکتا۔