افغان طالبان ایک بار پھر تاریخ کے ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں انہیں افغانستان میں اپنی عسکری قوت کھوئے بغیر سیاسی حکمت عملی تشکیل دینا ہے۔ ابھی تک تو طالبان کی قیادت کو یہی یقین تھاکہ امن مذاکرات ان کی فتح پر منتج ہوں گے۔ درحقیقت طالبان نے امریکہ سے مذاکرات کا آغاز ہی فتح کے احساس کے ساتھ کیا تھا اور انہوں نے امن عمل کے دوران خود کو سخت مذاکرات کار ثابت بھی کیا۔ طالبان کابل کی گلی بازاروں میں ایک فاتح فوج کی حیثیت سے داخل ہونے کے لئے مکمل طور پر تیار بیٹھے تھے مگر صدر ٹرمپ نے آخری لمحات میں طالبان قیادت سے کیمپ ڈیوڈ میں اپنی خفیہ ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان کر کے یہ خواب بکھیر دیا جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ اس ملاقات میں امریکہ طالبان معاہدے کا اعلان ہونا تھا۔ شاید یہ طالبان قیادت کے لئے کمزور ترین لمحات تھے کہ ان کو فاتح کے بالکل قریب جا کر پسپائی کا منہ دیکھنا پڑا جس سے یقینا ان کی تشویش اور غصہ میں اضافہ ہوا۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک طالبان، بعداز امن مذاکرات کے حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے کوئی پالیسی تشکیل نہیں دی کہ وہ اپنی عسکری قوت کو سیاسی قوت میں تبدیل کرکے توجہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور عالمی قوتوں اور افغانستان کے دیگر سٹیک ہولڈرز سے پاور شیرنگ کا فارمولا طے کرنے پر مرکوز کئے ہوئے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ وہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد نہ صرف افغانستان کے سٹیک ہولڈرز سے پاور شیئرنگ کا فارمولا طے کر لیں گے بلکہ تمام مسلح دھڑوں کو پہاڑوں سے اتر کر شہروں میں آنے پر بھی آمادہ کر لیں گے ان کی سیاسی حکمت عملی کے اپنے ڈایامینکس ہیں۔ طالبان کے وفد نے ملا برادر کی قیادت میں اسلام آباد میں اعلیٰ سطح ملاقاتوں میں یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ مذاکرات میں نرم لب و لہجہ اختیار کرنے پر تیار ہیں افغان طالبان کے وفد کی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اعظم سے ملاقاتوں کی اطلاعات ہیںمگر سب سے اہم امریکی افغان امور کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد سے ملاقات خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ گو امریکی حکام نے یہ واضح کر دیا ہے کہ زلمے خلیل زاد کی اسلام آبادمیں طالبان وفد سے ملاقات کا مطلب مذاکرات کی بحالی نہ سمجھا جائے۔ لیکن کم ازکم اس سے یہ بات قطعی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ امریکہ مستقبل میں مذاکرات کی بحالی کے امکانات کو مسترد بھی نہیں کرتا۔ ابھی تک تو یہ بھی واضح نہیں کہ اگر مذاکراتی عمل بحال ہوتا ہے تو یہ سلسلہ وہیں سے شروع ہو گا جہاں پر ختم ہوا تھا یا پھر چند معاملات پر ازسر نو بات چیت ہو گی۔ امریکہ کا بہرحال یہ اصرار ضرور ہو گا کہ وہ طالبان کو سیز فائر پر آمادہ کرنے اور افغانستان کی حکومت کی قانونی حیثیت تسلیم کر کے اسے تنازعہ کا فریق تسلیم کیا جائے کیا پاکستان طالبان کو اس شرط پر مذاکرات جاری رکھنے پر مجبور کر سکتا ہے؟ ممکن ہے کہ مذاکرات ختم کرنے کے ٹرمپ کے فیصلے کا مقصد بھی طالبان کو دبائو میں لانا ہے،جس میں یقینا امریکی صدر کامیاب بھی ہوئے ہیں لیکن عام تاثر یہی ہے کہ امریکہ کے پاس افغانستان میں محدود آپشنز ہی ہیں۔ امریکہ کے یک طرفہ انخلا کی صورت میں افغانستان میں مختلف گروہوں کی طرف سے فسادات کے سر اٹھانے کے خدشات موجود ہیں اور اس سے بیرونی طاقتوں کو افغانستان میں اپنی اپنی پراکسیز کو مضبوط کرنے کا موقع ہاتھ آ جائے گا۔ گو سٹیٹ کو کابل کے مفاد میں ہے مگر اس سے افغانستان میں جنگ ختم نہیں ہو سکتی۔ اس لئے افغان حکومت کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا کہ وہ افغانستان کے دیگر سٹیک ہولڈر بشمول افغان طالبان سے مذاکراتی عمل کی راہ اپنائے اسی طرح امریکہ کے لئے بھی طالبان کو دبائو میںلانے کے لئے معاملات کو بہت زیادہ طول دینا بھی ممکن نہ ہو گا۔ ہاں البتہ پاکستان کی پوزیشن خاصی نازک ہو گی کیونکہ بدلتے عالمی تناظر اور کشمیر کے معاملے میں پاکستان کو امریکی مدد و حمایت کی ضرورت ہو گی۔ جس کا انحصار صرف پاکستان کی افغان امن عمل میں معاونت پر ہو گا۔ امریکی مدد کے بدلے پاکستان کی خواہش ہوگی کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بحال ہوں جو خطہ کی سٹریٹجک صورتحال بالخصوص بھارت سے کشیدگی اور مسئلہ کشمیر کے حل میں بھارت پر دبائو بڑھانے میں نہایت اہمیت کا حامل ہوں گے۔ اسلام آباد کے پالیسی سرکلز میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ پاکستان کی طرف سے مسلح گروہوں کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کی پالیسی کے باعث بھارت کو پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ سے نتھی کرنے میں کافی حد تک ناکامی کا سامنا ہے۔ بھارت کا معاشی سیاسی اور سٹریٹجک پروفائل یقینا مضبوط ہے اس لئے دنیا کی اکثر اقوام بھارت سے تجارتی مراسم چاہتی ہیں لیکن پاکستان کی کشمیر کے حوالے سے پالیسی اور دہشت گردی کے حوالے سے زیروٹالرنس سے عالمی برادری میں کشمیر کے حوالے سے تشویش ضرور پائی جا رہی ہے۔بھارت ردعمل میں محدود جارحیت کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ جس سے پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ لیکن احساس محض خوف کی بنیاد پر ہے لیکن پاکستان کا افغان امن عمل میں مثبت کردار امریکہ کو بھارت پر دبائو بڑھانے اور کسی قسم کی مہم جوئی سے دور رکھنے پرمجبور کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان آئندہ ہفتے چین کے اہم دورے پر جا رہے ہیں جس میں سی پیک کے حوالے سے بات چیت کے علاوہ دیگر ایشوز پر بھی بات ہو گی۔ وزیر اعظم چین سے افغان امن عمل کے بارے میں بھی بات کریں گے۔ اس دورے میں کابل انتظامیہ کے رویہ اور امن عمل میں کردار بھی زیر بحث آئے گی۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ پاکستان اور چین دونوں ہی افغان طالبان کو افغان امن مذاکرات شروع کرنے اور رویہ میں نرمی کا مشورہ دیں گے۔ اگر طالبان عارضی فائر بندی پر ہی رضا مند ہو جاتے ہیں یہ بہت بڑی پیش رفت ہو گی۔ یہ الگ بات ہے طالبان کے لئے اپنے جنگجو کمانڈروں کو قائل کرنا ایک چیلنج ہو گا۔