رواں برس افغانستان میںقیام امن کے حوالے سے بہت ہی مبارک ثابت ہورہا ہے۔فروری میں قطرکے دارالحکومت دوحامیں امریکا اور افغان طالبان میں امن کے لئے تاریخی معاہدہ ہوا۔یہ معاہدہ تاریخی اس لحاظ سے ہے کہ پوری دنیا کی اس کو تائید حا صل ہے۔گزشتہ چند برسوں سے پاکستان نے افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کر دی تھی۔ ایک یہ کہ افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں۔ اس لئے اب فریقین کے درمیان بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔دوسری تبدیلی جو اسلام آباد نے کابل کے حوالے سے اپنی پالیسی میں کی ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں کابل کوبراہ راست شریک کیا جائے اور اسلام آباد ہر اس کوشش کی حمایت کریگا،جس میں افغانستان نہ صرف شامل ہو بلکہ قیادت بھی افغانستان ہی کریگا۔پاکستان کی افغانستان پالیسی میں اس بنیادی تبدیلی کے بعد امریکا اور افغانستان دونوں کئی برس تک اسلام آباد پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے لیکن امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات میں جو کردارپاکستان نے ادا کیا، اس پر دونوں کو یقین ہو گیا کہ اسلام آباد نے افغان پالیسی میں جو تبدیلیاں کی ہیں، وہ زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ عملی طور پراس پر عمل کرنے کے لئے تیاربھی ہے۔طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں واشنگٹن ،اسلام آباد کے کردار سے مطمئن تھا،اس لئے اس بات چیت کے دوران ہر اہم موڑ پر زلمے خلیل زاد نے پاکستان سے مشاورت کی۔طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے دوران کبھی بھی واشنگٹن نے اسلام آباد سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ کوئی ایسا الزام لگایا کہ جس سے طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات پر کوئی منفی اثر پڑے۔یہ تبدیلی نہ صرف واشنگٹن میں محسوس کی گئی بلکہ کابل کوبھی اس بار اطمینان ہو گیا تھا کہ اسلام آباد کی افغان پالیسی میں اس دفعہ جو تبدیلی آئی ہے ،وہ عارضی اور وقتی نہیں بلکہ وہ موجودہ حالات کی عکاس اور کابل میں قیام امن کا ممکنہ حل بھی ہے،لہذا کابل نے بھی اب اسلام آباد کے ساتھ مل کر قیام امن کے لئے جاری کوششوں میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ جب گزشتہ دور حکومت میں چیف ایگزیگٹیو تھے تو پاکستان نے کئی مرتبہ ان کو اسلام آباد آنے کی دعوت دی تھی لیکن وہ یہاں آنے سے انکاری تھے۔ اب چونکہ امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات اوراس کے بعد افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیان جاری بین الافغان مذاکرات میں پاکستان کے کردار سے وہ مطمئن ہیں،اس لئے انھوں نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔افغانستان کے اعلی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے دورہ اسلام آباد سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ پڑوسی ملک انڈیاجو کہ ابھی تک اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ کابل کے ساتھ ابھی بھی اس کے تعلقات اس نوعیت کے ہیں کہ وہ جب چاہے کابل کو اسلام آباد سے بدظن کر سکتا ہے۔ڈاکٹر عبداللہ کے اس دورے نے انڈیا کی ان تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اس دورے سے اسلام آبا دنے دلی کو واضح پیغام دیا ہے کہ ماضی کی طرح مستقبل میں ان کے لئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو بگاڑنا اب اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی فضا ختم ہو رہی ہے اور دونوں ممالک باہمی اعتماد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اسلام آباد میں تین مصروف ترین دن گزارے ۔انھوں نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ، وزیر اعظم عمران خان اوروزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقاتیں کی ۔ انھوں نے پاکستانی صحافیوں سے بھی ملاقاتیں کی ۔ ان تمام ملاقاتوں اور اسلام آباد میں ایک ادارے کی طرف سے خطاب کے دوران انھوں نے کہیں بھی ماضی کا حوالہ نہیں دیا۔انھوں نے کسی صحافی سے کوئی شکوہ اور شکایت نہیں کی کہ پاکستان نے ماضی میں ان کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں ۔ان تمام ملاقاتوںاور اپنے خطاب میں انھوں نے ماضی کی بجائے مستقبل کا ذکر کیا۔انھوں نے بداعتمادی کی بجائے اعتماد کی بات کی ۔ انھوں نے الزامات کی بجائے دوستی کا مشورہ دیا۔یہی وہ کامیابی ہے جو پاکستان نے اس دورے سے حا صل کی۔ماضی میں جب بھی افغانستان کے کسی اعلی عہدے دار نے پاکستان کا دورہ کیا، تو اس نے زیادہ تر ملاقاتوں میں اسلام آباد سے شکایتیں کی ۔ ماضی کی تلخ یادوں کو یاد کیا اور ایک دوسرے پر الزامات لگا کر واپس چلے گئے ،لیکن اس مرتبہ صورت حال مختلف رہی ۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اسلام آباد میں گزارے ان تین دنوں میں ماضی کی ان تلخ یادوں کی بجائے روشن اور پرامن مستقبل کی بات ۔ کابل میں بھی انھوں نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں امید کا پیغام دیا۔ وہاں بھی انھوں نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بجائے اسلام آباد پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو اسلام آباد میں پاکستان نے باور کرایا کہ افغانستان کا امن اب افغانوں کے ہاتھوں میں ہے۔پاکستان ،ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا کہ افغانستان کا مسئلہ اب فوجی نہیں رہا بلکہ اب یہ مسئلہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی حل ہوسکتا ہے۔ اسلام آباد ،ڈاکٹر عبداللہ کو اس بات پر بھی راضی کرنے میں کامیاب ہوا کہ دونوں ملکوں کو چاہیے کہ ماضی کی غلطیوں اور تلخیوں کی بجائے قیام امن کیلئے مل کر کام کرے۔ڈاکٹر عبداللہ نے پاکستان کی اس تجویز سے بھی اتفاق کیا ہے کہ دونوں ملکوں کی بہتری اسی میں ہے کہ اپنی سرزمین کوکسی کو بھی ایک دوسرے کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا دورہ اسلام آباد اس لحاظ سے بھی کامیاب رہا کہ کئی روز گزرنے کے بعد ابھی تک کابل نے کوئی متنازعہ بات نہیں کی۔ لگ ایسے رہا ہے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا دورہ اسلام آباد دونوں ملکوںکے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کا آغاز ہے۔اگر اس دورے کے چند ہفتے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تکرار شروع نہیں ہوئی، تو اس کا مطلب ہوگا کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اسلام آباد سے کابل کیلئے ایک بڑا اور اہم پیغام لے کر گیا ہے، جو ماضی کی دشمنی کی بجائے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کا پیغام ہے ۔