امریکی اور نیٹو افواج کاانخلا شروع ہوتے ہی افغانستان میںخانہ جنگی تیز ہوگئی ہے۔ کہیں طالبان حملے کررہے ہیں اور کہیں بم دھماکوں میں طالبان کے مخالفین مارے جارہے ہیں۔ کابل حکومت انتشار کا شکار ہے لیکن اپنی ضد پر ڈٹی ہوئی ہے کہ طالبان موجودہ آئین کے تحت حکومت کا حصہ بنیں۔طالبان کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں۔ آجکل صدر اشرف غنی ایک سپریم کونسل بنانے کے لیے کوششیںکررہے ہیں تاکہ مختلف دھڑوں اور نسلی گروہوں کو اقتدار میں شریک کرکے مطمئن کیا جاسکے لیکن بیل ابھی تک منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ امریکی فوجیں افغانستان سے جس رفتار سے نکل رہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ گیارہ ستمبر کی حتمی تاریخ سے پہلے ہی وہ ملک چھوڑ کر جاچکی ہوں گی۔ اگلے روز میڈیا میں تصاویر آئی تھیںکہ امریکی فوجی قندھار کے فضائی اڈہ سے روانہ ہورہے ہیں جو انہوں نے افغانستان کی سکیورٹی فورس کے حوالہ کردیا ہے۔ دوسری طرف طالبان کے حملوں میںاضافہ ہوتا جارہا ہے۔گزشتہ روز ہی طالبان نے کابل کے شمال میںبغلان صوبہ پر نیا حملہ کیا جس میں بیس طالبان اور آٹھ افغان فوجی جاں بحق ہوئے۔اس سے پہلے افغان فضایہ نے وہاں طالبان پر بمباری کی تھی۔ تخار ‘ کے علاقہ میں بھی حملہ میں عام لوگوں کے مرنے کی اطلاعات آئی ہیں۔میدان وردک صوبہ میں جلریز ضلع کو طالبان نے چند روز پہلے ہی فتح کیا ہے۔ لغمان صوبہ کا دولت شاہ ضلع بھی افغان فوج کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔ہزارہ آبادی پر حملے بڑھ گئے ہیں۔ چند روز پہلے غور صوبہ میںبم دھماکہ میںچار ہزارہ افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس سے پہلے کابل میں ساٹھ ہزارہ طالبات دھماکہ میںجاں بحق ہوگئی تھیں۔ہلمند میں بھی بم دھماکہ میں نو افراد مارے گئے۔ تاہم‘ اس دفعہ طالبان کے لیے کابل یا دیگر علاقے مخالفین سے چھیننا آسان نہیں ہوگا۔عالمی برادری فکر مند ہے کہ افغانستان کا دوبارہ وہ حال نہ ہوجائے جو انیس سو نوّے کی دہائی میںہوا تھا۔ اس وقت افغان مجاہدین کی سات جماعتیںاقتدار پر تنہا قبضہ کرنے کی خاطر آپس کے اختلاف کا شکار ہوکر ایک دوسرے سے لڑرہی تھیں اورروس کے حمایت یافتہ کابل کے حکمران نجیب اللہ کی جگہ متبادل حکومت نہیں بناسکیں تھیں۔ خانہ جنگی ہوتی رہی اور بالاخر طالبان وجود میں آئے جنہوں نے امن و مان نافذ کیا لیکن ساتھ ہی ایک ایسے اسلامی نظام کا نفاذ کردیا جسکی عالمی یا اسلامی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ امریکہ اور یورپ کوخدشہ ہے کہ اگر طالبان مکمل طور پر غالب آگئے تو داعش اور القاعدہ کی تنظیمیںدوبارہ افغانستان کو اپنا مرکز بنا کر دنیا میں دہشت گردی شروع کرسکتی ہیں۔انہیں اس بارے میں طالبان کی یقین دہانیوں پر مکمل اعتبا رنہیں ہے۔ حال ہی میں نیٹو کے سربراہ سٹولن برگ نے حال ہی میںفرانس کے صدرایمانویل میخواںسے فرانس میں ملاقات کی اور اس عزم کو دہرایا کہ گو نیٹو کے فوجی افغانستان سے نکل جائیں گے لیکن نیٹو کابل حکومت کی مدد جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیٹوکابل حکومت کی افغان نیشنل آرمی کی ٹریننگ اور استعداد بڑھانے کے لیے اقدامات کرے گا اور اسکی مالی مدد جاری رکھے گا۔ امریکی جنرل میکنزی نے کہا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد کابل انتظامیہ کی مدد کے لیے فضائیہ استعمال کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں ہمسایہ ملکوں سے جنگی طیاروں کو انکی فضا میں سے پرواز کرنے کے لیے اجازت حاصل کرنے کی خاطر مذاکرات کیے جارہے ہیں۔ پاکستان نے تو امریکہ کو اپنے فضائی اڈے دینے سے انکار کردیا ہے۔ وسط ایشیائی ریاستیں روس کے زیر اثر ہیں۔ یہ ممالک بھی اڈے تو نہیں دے سکتے لیکن امریکی جہازوں کو اپنی فضائی حدوداستعمال کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک میں کئی ممالک نے کابل حکومت سے تعاون جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے فوجی اس ماہ افغانستان چھوڑ دیں گے لیکن نیوزی لینڈ نے بامیان میں ایک بڑا شمسی توانائی کا منصوبہ لگایا تھا وہ اسکے تعاون سے کام کرتا رہے گا ۔ طالبان اور کابل حکومت کے اب تک جو روّیے ہیں اس سے یہ امکان بعید ہے کہ وہ کسی مصالحت یا سمجھوتہ پر پہنچیں گے اور وسیع البنیاد حکومت تشکیل پاسکے گی۔ افغان روایات کے مطابق ان کے درمیان لڑائی جاری رہے گی جب تک ایک فریق مکمل فتحیاب نہ ہوجائے۔پاکستان کے لیے ہر اعتبار سے یہ صورتحال پریشان کن ہے۔ افغان حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب نے حال ہی میں اس الزام کو دہرایا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کی مدد کررہا ہے ۔ ہمارے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اس پر تنقید کی اور کہا کہ افغان صدر اشرف غنی فیصلہ کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں ۔ ایک طرف تو وہ پاکستان کا تعاون حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف ہم پربے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں۔اسکے جواب میں افغان دفتر خارجہ نے حمداللہ کے بیان کا دفاع کیا اور انکے موقف کی تائیدکی۔مطلب‘ اسلام آباد اور کابل کے درمیان اعتماد کی فضا قائم نہیں ہوسکی ۔ کابل حکومت اسلام آباد سے اپنی بقا کے لیے جس قسم کا تعاون چاہتی ہے وہ شائد پاکستان کے اختیار میں نہیں۔ طالبان اسلام آباد کے حکمرانوں کی بات بھی ایک حد سے زیادہ نہیں مانتے۔ یہ معاملہ روز بروز الجھتا جا رہا ہے۔ افغانستان کی خانہ جنگی کے مزید بُرے اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے۔افغانستان اور پاکستان آپس میں اسطرح جڑے ہوئے ہیں کہ افغانستان کے اندر امن و امان سے متعلق جو بھی بڑا واقعہ ہوتا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ملک کے اندر ہورہا ہو۔ دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان سینکڑوں میل لمبی سرحد کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ نسلی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے اندر تیس لاکھ افغان مہاجرین ہیں جنکی سرحد پار رشتے داریاں ہیں۔ ہماری بعض فرقہ پرست اور شدت پسند تنظیموں کے سرحد پار تعلقات ہیں۔ افراتفری اور انتشار کی فضامیںانہیں محفوظ ٹھکانے مل جائیں گے اور انکے لیے باڑ کے ہوتے ہوئے بھی سرحد پار آمد ورفت اور پاکستان میں کارروائیاں کرنا آسان ہوجائے گا۔ بھارت کے لیے مواقع بڑھ جائیں گے کہ وہ داعش اور تحریک طالبان کوپاکستان کے خلاف استعمال کرے ۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔اسلام آباد کے پالیسی سازوں کو اس سے نپٹنے کے لیے حکمت عملی بنانا اور منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ پاکستان کا امن و امان اور معاشی ترقی افغانستان کے امن سے وابستہ ہے۔