چیئرمین کرکٹ بورڈ رمیز راجہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پاک افغان میچ کے بعد شارجہ سٹیڈیم میں افغان تماشائیوں کی جانب سے پاکستانی شائقین کے ساتھ غنڈہ گردی کی شکایت آئی سی سی سے کی جائے گی۔ میچ کے فوری بعد شارجہ سٹیڈیم میں موجود ایک دوست نے مجھے چار ویڈیو کلپ بھیجے۔ ٹی وی پر جب افغان بائولر فرید کے آصف علی کے ساتھ اشتعال انگیز سلوک کی خبریں چل رہی تھیں۔مجھے ان لوگوں کی حالت پر دکھ ہو رہا تھا جن پر افغان تماشائی سٹیڈیم کی کرسیاں اکھاڑ کر پھینک رہے تھے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بائولر فرید نے آصف کو آئوٹ کرنے کے بعد جو بدتمیزی کی اس نے میدان سے باہر بیٹھے افغان تماشائیوں کو بھی بھڑکایا۔ آئی سی سی نے آصف اور فرید کو کرکٹ کی روح کے منافی طرز عمل کا مظاہرہ کرنے پر میچ فیس کا 25فیصد جرمانہ کیا ہے ۔آئی سی سی نے اس بات کا جائزہ لیا کہ گزشتہ 24ماہ میں ان دونوں کھلاڑیوں کا میدان میں رویہ کیسا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس نوع کے واقعات کو زیادہ زیر بحث نہیں لانا چاہیے۔یہ ان لوگوں کی اپنی رائے ہو سکتی ہے لیکن سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کا ردعمل دیکھ کر لگتا ہے کہ اس معاملے کو صرف آئی سی سی پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔شارجہ پولیس نے 391افغانوں کی شناخت کر کے ان کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے‘ حیرت کی بات کہ اکثر کے پاس پاکستانی پاسپورٹ نکلے ہیں۔ممکن ہے جب تک یہ کالم قارئین تک پہنچے سٹیڈیم کی املاک کو نقصان پہنچانے اور پرامن تماشائیوں کو ہراساں کرنے والے یہ غنڈے واپس اپنے ملک بھیج دیے جا چکے ہوں۔ افغان کھلاڑیوں اور تماشائیوں کا غنڈہ گردی پر مبنی رویہ پاکستان نے پہلی بار نہیں دیکھا۔ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے دوران پچھلی بار بالکل ایسے ہی مناظر میدان کے اندر اور میدان کے باہر دیکھے گئے تھے۔اس وقت سوال اٹھا تھا کہ افغانی پاکستان سے اس قدر خفا کیوں ہیں۔جواب کا تعلق گنجلک سٹریٹجک امور کے ساتھ جا ملتا تھا اس لئے پاکستان میں غصے سے بھرے عوام کی آواز گلے سے باہر نہ آ سکی۔ پاک افغان تعلقات کے ضمن میں ہمارے ہاں دو تصاویر دکھائی جاتی ہیں۔پہلی تصویر یہ کہ افغانستان ایک برادر ہمسایہ ملک ہے۔دنیا نے اس پر جنگیں مسلط کیں۔پاکستان ان کی مدد کر رہا ہے۔50لاکھ افغان پناہ گزیں پاکستان میں آئے۔30لاکھ اب اپنی تیسری نسل کے ساتھ یہاں رہ رہے ہیں۔اس تصویر میں یہ رنگ بھی بھر دیا جاتا ہے کہ، افغان باقی کہسار باقی، کہا جاتا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کی تزویراتی گہرائی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ افغانستان کے ذریعے پاکستان وسط ایشیا کے ساتھ تجارتی راہداری قائم کر سکتا ہے۔اس لئے ان نادانوں کی ہر کارروائی کو نظر انداز کر دیا جائے۔ دوسری تصویر خوش کن نہیں کیونکہ اسے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے نہیں بنایا۔اس میں قیام پاکستان کے وقت افغانستان کا غیر دوستانہ رویہ‘ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر مداخلت اور مسلح کارروائیوں کے الزامات۔سوویت اور امریکی جنگوں میں پاکستان کا کردار۔پاک افغان سرحد پر وقفے وقفے سے ہونے والے ناخوشگوار واقعات اور پاکستان و بھارت کی افغان سرزمین پر جاری کشمکش نے رنگ بھرے ہیں۔بدقسمتی سے دوسری تصویر زیادہ دیکھی جا رہی ہے ۔پاکستان کی خارجہ پالیسی نے اس غیر دوستانہ تصویر کے نقوش بدلنے کی کوشش نہیں کی ۔ افغانستان میں طالبان حکومت کا مطلب یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کے مفادات محفوظ ہیں۔پاکستان کے لوگ اور پاکستان کے لئے اہم کھیل یقینا پاکستان کا مفاد شمار ہو گا۔پارلیمنٹ میں بین الصوبائئی رابطہ کمیٹی نے شارجہ میں پاکستانی شائقین کے ساتھ افغان غنڈوں کے سلوک کا نوٹس لیا ہے۔ افغان کھلاڑیوں کے طرز عمل کو غیر پیشہ وارانہ قرار دے کر چیئرمین پی سی بی سے کہا گیا ہے کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے افغان کرکٹ بورڈ سے بات کریں ۔کیا سارا معاملہ اتنا ہی سادہ ہے یا فلم کا کچھ قابل دید حصہ پردے پر نہیں آ سکا ؟ پاکستان اور بھارت کے کھلاڑیوں میں دوستانہ تعلقات پر ہم سب خوش ہیں۔’’ہم‘‘ سے مراد وہ عام لوگ جو کھیل کو کھیل کے طور پر دیکھتے ہیں۔متحدہ عرب امارات میں پاکستانی اور بھارتی شہری مل جل کر رہتے ہیں‘ ایک ہی جگہ کام کرتے ہیں۔دوستانہ تعلقات ہیں۔عام طور پر کوئی ایک دوسرے کے خلاف بات نہیں کرتا۔مسائل اس وقت سے پیدا ہونے لگے جب بھارت کی انتہا پسند حکومت نے ان تمام ممالک میں پاکستان کے اثرورسوخ کو کم کرنے کی پالیسی اختیار کی جو اچھے برے وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔بھارتی باشندے متحدہ عرب امارات سے پیسہ کما رہے ہیںَ مقامی قوانین سخت ہیں اس لئے بھارتیوں کے بجائے افغان باشندوںکو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس معاملے میں بھارت کی دلچسپی کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ پاک افغان میچ کے دوران بھارتی چینلز اور مبصرین افغان ٹیم کو سپورٹ کر رہے تھے‘ آصف کے آئوٹ ہونے پر وہ اتنے ہی بے قابو تھے جتنا افغان بائولر فرید۔پھر پاکستانی تماشائیوں پر بپھرے ہوئے افغانوں کے تشدد کے مناظر دکھا کر جو تبصرے ہو رہے تھے وہ کہیں سے ملی لائن کی نشاندہی کرتے ہیں۔ورلڈ کپ کے دوران افغان تماشائیوں کا رویہ اس سے بھی برا تھا۔ یہ درست ہے کہ کشیدگی ختم کرنے کے سو طریقے تھے۔دونوں کپتان ایک دوسرے کو گلے لگا لیتے‘ لڑنے والے کھلاڑی ایک دوسرے سے معذرت کر لیتے۔افغان مینجمنٹ پاکستان کے ڈریسنگ روم کا دورہ کر لیتی۔دونوں کرکٹ بورڈ فوری طور پر کچھ فیصلہ کر لیتے‘ لیکن کچھ بھی نہ ہو سکا۔معلوم نہیں افغان ٹیم کے بائولنگ کوچ عمر گل کا کردار کیوں کمزور رہا۔معلوم نہیں خارجہ پالیسی افغانستان کے عام لوگوں تک پاکستان کی محبتیں کیوں نہیں پہنچا سکی۔