ایک ایسا ملک جس کی معیشت نہ ہونے کے برابر ہو‘ روزگار کے ذراءع نہ ہوں ‘ بیشتر افرادجدید تعلیم اور ہنر سے آراستہ نہ ہوں ‘پسماندہ قبائلی معاشرت ہو ‘ لوگوں کے درمیان نسلی اور لسانی اختلافات شدید دشمنی کی حد تک ہوں ‘ جنگ و جدل کی صدیوں پرانی روایات ہوں اس ملک کا کیا مستقبل ہوسکتا ہے;238; اس وقت افغانستان میں لوگوں کے دو بڑے پیشے ہیں ۔ ایک‘ افیون کی کاشت اور اس سے ہیروئن کی تیاری ۔ دوسرے‘ ٹیکس فری اشیا ء کی سرحد پار اسمگلنگ جسے وہ تجارت کا نام دیتے ہیں ۔ افغانستان سے پاکستان ہر سال چھ سے سات ارب ڈالرمالیت کی مختلف اشیاء اسمگل کی جاتی ہیں ۔ افغان آبادی کا ایک چھوٹا سا حصّہ مویشی پالتا یاپھلوں کی کاشت کرتا ہے جو ہمسایہ ملکوں کو فروخت کیے جاتے ہیں لیکن اس پہاڑی ملک میں مختصر سی زراعت اسکی تین کروڑ سے زیادہ آبادی کو پال نہیں سکتی ۔ افغانستان کواپنے روشن مستقبل کی خاطر قبائلی عہد سے آگے بڑھ کر جدید ترقی یافتہ دنیا میں قدم رکھنا ہوگا ۔ صرف اسکے بڑے شہروں کابل یا ہرات کو نہیں بلکہ پورے افغانستان کو ۔ معاشی وسائل سے محروم افغانوں کی صدیوں سے یہ روایت رہی ہے کہ وہ ہندو کش کے پہاڑوں سے اُتر کر برصغیر پاک و ہند پر یلغار کرتے اور یہاں سے سونا‘ چاندی‘ مال مویشی کی لوٹ مار کرکے واپس چلے جاتے کیونکہ برصغیر ایک خوشحال زرعی خطّہ تھا‘ یہاں مال و دولت کی فراوانی تھی ۔ معاشی مجبوریوں کے باعث افغان قبیلے برصغیر کی طرف ہجرت بھی کرتے رہتے تھے تاکہ یہاں مستقل مقیم ہو کر زراعت اور دیگر پیشوں سے وابستہ ہوجائیں ۔ انہوں نے متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں اپنی بستیاں بسائیں ۔ تازہ ترین ہجرت چالیس سال پہلے انیس سو انہتر میں شروع ہوئی جب سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں ۔ اسکے بعد افغانستان میں ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجہ میں پاکستان میں تیس لاکھ سے زیادہ افغانی ہجرت کرکے آئے ۔ چالیس برس ہوئے بیشتر مہاجرین اب تک ہمارے ہاں مقیم ہیں ۔ ان میں سے نصف تو پاکستان کے شناختی کارڈ بنواچکے ہیں ‘مقامی زبانیں بولتے ہیں ‘ تجارت کرتے ہیں ‘ جائیدادیں خرید چکے ہیں ۔ ان کے واپس اپنے وطن میں جانے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ جو معاشی وسائل اور شہری سہولتیں پاکستان میں دستیاب ہیں افغانستان میں نہیں ۔ ہر سال تھوڑے سے مہاجر واپس جاتے ہیں تاکہ اقوام متحدہ کے ادارے سے فنڈز لے سکیں ۔ کچھ عرصہ بعد پھر واپس آجاتے ہیں ۔ ان کی حکمت عملی یہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان آتے جاتے رہیں ‘ تجارت کرتے رہیں ۔ دونوں ملکوں سے جو فوائد مل سکتے ہیں ان سے فیض یاب ہوتے رہیں ۔ انیس سو نواسی میں روس تو افغانستان سے پسپا ہوکر چلاگیا تھا لیکن افغان گروہ آپس میں اقتدار کی خونریز لڑائیوں میں مصروف رہے ۔ اب امریکہ بھی فوجیں نکال رہا ہے تو پھر وہی خطرہ ہے کہ متحارب افغان گروہ ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں گے ۔ افغانستان میں امن کی راہ میں ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ طالبان جنگ جُو اب کیا کام کریں گے ۔ انہیں روزگار مہیا کرکے پُرامن معاشرہ کا حصّہ کیسے بنایا جائے ۔ انہیں لڑنے‘ بندوق چلانے کے سوا اور کوئی کام تو آتا نہیں ۔ طالبان کی ایک بڑی تعداد کو افغان فوج اور پولیس میں شامل کرکے روزگار مہیا کیا جاسکتا ہے لیکن اس مقصد کے لیے فنڈز کا بندوبست کرنا ایک مشکل کام ہوگا ۔ اگرمنصوبہ کے مطابق طالبان کی امریکہ کے ساتھ شراکت چل پڑی تو انہیں امریکہ سے کچھ نہ کچھ رقم مل جایا کرے گی ۔ تاہم یہ مسئلہ کا کوئی طویل مدتی حل نہیں ہے ۔ افغانستان کی معیشت کوبالآخر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑے گا کیونکہ بیرونی ممالک زیادہ دیر تک اسکا بوجھ نہیں اٹھا سکتے ۔ خاص طور پرکورونا وائرس کے پھیلاوَ کے بعد عالمی معیشت ایک بڑی مندی کا شکار ہے ۔ افغانستان میں ڈالروں کا بہاوَ کم ہوگا ۔ افغان آبادی کا دو تہائی تیس سال سے کم عمر کے بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ چیلنج یہ ہے کہ انہیں تعلیم سے آراستہ کیا جائے اور ہنرمند بنایا جائے تاکہ وہ دستکاری یا صنعتوں میں کام کرنے کے قابل ہوسکیں ۔ اس مقصد کی خاطربڑے پیمانے پرہر علاقہ میں تعلیمی اور فنی ادارے کھولنا ہوں گے ۔ سب سے اہم‘افغانستان میں صنعتی ترقی کا عمل شروع کیا جائے ‘ کارخانے لگائے جائیں جن سے لوگوں کو روزگار ملے‘ لوگوں کو منشیات کا کاروبار نہ کرنا پڑے اور کاروبار ِمملکت چلانے کو بیرونی امداد کے لیے ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں ۔ افغانستان میں معدنیات کی موجودگی کا بھی بہت شور ہے لیکن انہیں نکالنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور اربوں ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری درکار ہے ۔ افغانستان وسط ایشیا ‘ جنوبی ایشیا اور چین کے درمیان تجارتی گزرگاہ بن کر بھی راہداری کے طور پر مال بناسکتاہے لیکن خانہ جنگی کے ماحول میں یہ کام کیسے ہوسکتے ہیں ;238; سماجی اور معاشی ترقی کے سب کام اُس صورت میں ممکن ہیں جب افغانستان میں امن و استحکام ہو ۔ اس مقصدکے لیے ضروری ہے کہ طالبان سمیت تمام گروہ ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کریں ۔ ایک حل یہ ہے کہ افغانستان کے مختلف نسل و زبان سے تعلق رکھنے والے علاقے ایک کنفیڈریشن کی طرز پر اپنی ریاست قائم کرلیں ۔ پشتون‘ تاجک‘ ہزارہ‘ ازبک آبادیوں پر مشتمل وفاقی اکائیاں ہوں ۔ یہ گروہ اپنے اپنے علاقوں میں داخلی خود مختاری کے ساتھ حکومت کریں جبکہ مرکزی حکومت کے پاس صرف چند اہم شعبے ہوں جیسے دفاع‘ خارجہ پالیسی‘ کرنسی‘ مواصلات ‘ بیرونی تجارت وغیرہ ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر وفاقی اکائی کے اندر بھی اختیارات نچلی سطح پر تقسیم ہوں تاکہ سب قبائل اور ذیلی قبیلے اپنے اپنے علاقوں میں مقامی حکومتیں چلائیں ۔ اُن کے درمیان اقتدار اور معاشی وسائل پر قبضہ کی لڑائیاں بند ہوسکیں ۔ اگر افغان اپنی خانہ جنگی ختم نہیں کریں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ لچک ‘ مفاہمت اور تصفیہ کا روّیہ اختیار نہیں کریں گے بیرونی قوتیں انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہیں گے اور اُن کاخون بہتا رہے گا ۔