دہلی کے حکمرانوں کی بے چینی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے کیونکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سمجھوتے کے امکانات روشن ہوچکے ہیں ۔ طالبان امریکہ معاہدے نے افغانستا ن کے زمینی حقائق یکسر بدل دیئے ۔ بھارتی حکومت نائن الیون کے بعد طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے تصور کے ہی کے خلاف تھی۔ امریکہ بہادر نے مذاکرات کی بساط بچھائی تو اس کے افغان حلیفوں کی طرح بھارتی پالیسی سازوں کے بھی چودہ طبق روشن ہوگئے۔امریکہ کی توجہ کامحور رواں دھائی میں مشرق وسطی ہے جہاں وہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان اختلافات کی گھتیاں سلجھا نے اور ان کے مابین معمول کے سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کرانے کی کوشش کررہاہے۔ رفتہ رفتہ دہلی نے دکھے دل کے ساتھ افغانستان کے زمینی حقائق سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ماسکو میں سرکاری آشیر باد سے ایک غیر سرکاری وفد طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شریک کرایا۔ گزشتہ ماہ بارہ ستمبر کو قطر میں ہونے والے انٹراافغان مذاکرات میں بھارت کے وزیرخارجہ جے شنکر نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔دبے لفظوں میں انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین بھارتی مفادات کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ ان کی موجودگی اس امکان کو ظاہر کرتی ہے کہ اگلے کسی مرحلے میں وہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں شریک ہوجائیں گے۔افغانستان پیس جرگہ کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے اپنے حالیہ دورے میں کہا کہ اگر بھارت طالبان سے مذاکرات کرتاہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ بھارت کے برعکس عملیت پسند چین نے یہ حقیقت بہت پہلے بھانپ لی تھی کہ طالبان کو شریک اقتدار کیے بغیر افغانستان میں امن واستحکام کا قیام ایک سہانے سپنے کے سوا کچھ نہیں۔ چنانچہ 2014 میں چین نے افغانستان امور پر اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کیا۔ محض ایک برس بعد طالبان ، افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کا پراسیس چین نے شروع کیا۔ افغان حکومت کی بھی اس نے بھرپور مدد کی اور افغانستان میں بھاری سرمایاکاری شروع کردی۔ چین نے پاکستان کی مدد سے طالبان کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھول کردانشمندی کا ثبوت دیا اب وہ طالبان اور افغان حکومت دونوں کا قابل اعتماد اتحادی ہے۔امریکہ کے انخلا سے پیداہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے چین نے طالبان کو عندیہ یا ہے کہ اگر وہ امن کی ضمانت دیں تو چین ان کے زیر انتظام علاقوں میں سڑکوں اور صنعتوں کا جال بچھانے کو تیار ہے۔ اس کے برعکس بھارت نے اگرچہ افغانستان کی تعمیر نو میں کثیر سرمایاکاری کی لیکن وہ صرف افغان حکومت کا اتحادی تھا۔ دیگر گروہوں کے ساتھ اس نے دشمنی پالی۔ تین ارب ڈالر کی خطیر رقم افغانستان میںمختلف منصوبو ں پر صرف کی۔ افغانوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے اپنے اداروں کے دروازے کھولے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے پاکستان سے بدلا چکانے کے لیے افغان سرزمین کو پاکستان مخالف عناصر کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا۔پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی بھارت نے ڈٹ کر مخالفت کی جس نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کیا۔ اس طرح افغانستان کا تنازعہ دونوں ممالک کے درمیان مسابقت اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا میدان بن گیا۔ امریکہ اگلے برس افغانستان سے انخلا کا اعلان کرچکا ہے لہٰذا خطے کے دیگر ممالک کی طرح دہلی میںبھی پالیسی ساز اور سیاستدان سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ وہ کس طرح افغانستان میں اپنی موجودہ پوزیشن برقرار رکھیں۔ا س پس منظر میں طالبان کے ساتھ بھارت کے تعلقات کار کے قیام میں اب زیادہ دیر نہیں۔ بھارت کو احساس ہے کہ طالبان کی حمایت کے بغیر وہ افغانستان میں اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتا۔ خاص طور پر وہ افغانستان سے ہوکر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت نہیں کرسکے گا۔بھار ت کے لیے مشکل یہ ہے کہ اگر وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتا ہے تو اس کے پاس کشمیری عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہے گا ۔عالم یہ ہے کہ اس نے کشمیر میں جماعت اسلامی اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ جیسی سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کررکھی ہے ۔ سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں۔ مزاحمت کرنے والے والے لیڈر جیلوں میں ہیں۔ اس طرح بھارت نے کشمیر کے اندر سیاسی عمل اور مکالمہ کا راستہ ہی بند کردیا ہے۔دہلی کو اندیشہ ہے کہ اگروہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرتاہے تو کشمیر میں اس کی حکمت عملی ا پناجواز کھو دے گی۔ بھارت کی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ خطے میں تیزی سے تبدیل ہونے والے حقائق کا بروقت ادراک نہ کرسکی۔وہ امریکہ ، آسڑیلیا اور جاپان کے ساتھ چین مخالف اتحاد کے قیام میں مگن رہی لیکن چین نے ایران جو بھارت کا اسٹرٹیجک شراکت دار تھا وہاں بھاری سرمایاکاری کرنے کا اعلان کردیا۔نیپال کو بھی بلٹ اینڈروڑ انی شیٹیو کا حصہ بنا نے جارہاہے۔ سات سمندر دور کی طاقتوں کے ساتھ اشتراک نے اس کے علاقائی حلیفوں کو چین کی گود میں ڈال دیا۔ خطے کے ممالک کا پاکستان کی طرح یہ اندیشہ غلط نہیں کہ کئی امریکی انخلاکے بعد افغانستان داخلی خانہ جنگی کی دلدل میں نہ پھنس نہ جائے۔علاقائی ممالک کے درمیان جاری خفیہ جنگوں کا معرکہ ایک بار پھر افغان سرزمین پر برپا نہ ہوجائے۔ افغان کے حوالے سے عمومی ترجیحات یہ ہونی چاہیں کہ مسلح گروہ رفتہ رفتہ سیاسی جماعتوں میں تبدیل ہوجائیں۔ان کی سیاسی فکر سے پرتشدد طریقوں سے اقتدار پر قبضہ کرنے کا تصور ختم ہوجائے اور وہ بقائے باہمی کے اصولوں کے مطابق سیاسی جدوجہد کرنے پر متفق ہوجائیں۔ پاکستان سمیت دنیا کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ افغانستان مستقبل میں کسی بھی دوسرے ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بنے۔ان مشترکہ اہداف کے لیے وسیع پیمانے پر علاقائی ممالک کے درمیان تعاون اور گفتگو شنید درکا رہے جو موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آئی۔ ایران اور روس کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں کچھ سست روی آئی ہے لیکن ادارتی سطح یہ تعلقات اب بھی گہرے اور مضبوط ہیں۔ ان تینوں ممالک کو افغانستان اور بالخصوص طالبان کے حوالے سے مطمئن رکھنا ضروری ہے ۔افغانستان کا امن ان کے قومی مفادات سے ٹکراتاہوا نظر نہیں آنا چاہیے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں امن واستحکام کے قیام کے بغیر پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا لہٰذا پاکستان کو افغانستان کے امن عمل کی تکمیل کے لیے اپنی کوششوں میں مزید سرعت لانا ہوگی ۔