طالبان امریکہ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تو دونوں فریق اپنے اپنے ایجنڈے کے ساتھ میز پر آئے۔ امریکہ ابتدائی مرحلے میں افغان طالبان کو انگیج کر کے فائر بندی چاہتا تھا۔ افغان طالبان چاہتے تھے کہ حملہ آور ان کو فاتح جیسا پروٹوکول دے اور انخلاء کے بعد کی صورت حال کو ان پر چھوڑ دے۔ مذاکرات کے پہلے چھ مرحلے ہوئے‘ ہر بار زلمے خلیل زاد یہ تاثر دیتے رہے کہ افغان تنازع کے حوالے سے خوشخبری آیا چاہتی ہے۔ ہر بار خوشخبری آئندہ مرحلے پر موقوف ہو گئی۔ مذاکرات کے آغاز میں امریکی وفد کا گھمنڈ اور تکبر افغان طالبان نے اس وقت مٹی کر دیا جب طالبان سے انخلاء کے بعد کے انتظامی امور کی نوعیت کے بارے میں پوچھا۔ طالبان نے سفارتی رکھ رکھائو سے بے نیاز لہجے میں جواب دیا کہ افغانستان ہمارا ملک ہے‘ امریکی انخلاء کے بعد ہم جو مناسب سمجھیں گے کریں گے۔ آپ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ افغان طالبان کے ساتھ امریکہ مذاکرات کا ساتواں دور شروع کر چکا ہے۔ طالبان نے بطور فاتح اپنا تشخص اب تک برقرار رکھا ہے۔ امریکہ اپنا سارا جنگی اور سفارتی تجربہ بروئے کار لا کر طالبان کو شکست خوردہ اور خود کو ایسا انسانیت دوست ثابت کرنے کی تگ و دو میں ہے جس نے اپنے ہزاروں فوجی ہلاک کروا کے افغانستان سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا۔ افغان طالبان نے امریکہ کا جو مطالبہ اب تک تسلیم نہیں کیا وہ اشرف غنی حکومت کے ساتھ مذاکرات ہیں۔ طالبان رہنما عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ امریکہ کو تنازع کا اصل فریق سمجھ کر صرف اس سے بات کریں گے۔ امریکی انخلاء کے بعد البتہ وہ ملک کے نئے سیاسی بندوبست کے ضمن میں اشرف غنی حکومت سے بات چیت کرنے میں قباحت نہیں سمجھتے۔ امریکہ طالبان سے مذاکرات میں جس پیشرفت کا اعتراف کرتا رہا ہے وہ دو نکات پر مشتمل ہے۔ نمبر ایک افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کا انخلا اور دوسرا افغان سرزمین نیٹو افواج کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت۔ گزشتہ چھ ادوار میں ان ہی نکات پر گفتگو ہوتی رہی۔ دونوں فریق اس سلسلے میں پیشرفت کا اقرار کرتے رہے ہیں تاہم غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے طریقہ کار اور مدت انخلا جیسے معاملات پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔ گزشتہ دنوں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے پہلی بار مصالحتی انداز اختیار کیا اور اطلاع دی کہ امریکہ کے ساتھ انخلا پر اتفاق ہو گیا ہے اور مذاکرات کے ساتویں دور میں اس معاملے پر دستخط ہونے کا امکان ہے۔ ہمارے دوست شاہد اخوند نے بھی ان اطلاعات کی تصدیق کی مگر اگلے ہی روز کابل میں نیٹو فوج کے ترجمان ڈیوڈ بٹلر نے امریکہ اور طالبان میں مذاکرات میں کسی قسم کی پیشرفت کی تردید کر دی۔ ڈیوڈ بٹلرکا کہنا ہے کہ ان کے لوگ افغان فورسز کی تربیت کے لئے اس وقت تک موجود رہیں گے جب تک امن نہ آ جائے۔ اس بات کی وضاحت تو یہی ہوئی کہ جب تک طالبان ہتھیار نہ ڈالیں گے مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ امریکہ کی طاقت اس کی معاشی دفاعی اور سفارتی صلاحیت میں ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے امریکی مفادات کی تکمیل ان تینوں صلاحیتوں میں سے کسی ایک یا دو کے بیک وقت استعمال کے ذریعے کی جاتی ہے۔ افغانستان پر حملہ کرتے وقت امریکہ نے تینوں صلاحیتیں استعمال کیں۔ جو لوگ پاکستان کی سفارتی تنہائی کی بات کرتے ہیں وہ یہ بھول رہے ہیں کہ یہ امریکی حکمت عملی کا حصہ ہے جو وہ افغان تنازع میں پاکستان کا کردار کم سے کم رکھنے کے لئے چاہتا ہے۔ جونہی یہ تنازع طے ہوا سفارتی تنہائی کا یہ مفروضہ تحلیل ہو جائے گا۔ پاکستان میں معاشی و کاروباری سرگرمیاں نئے سرے سے شروع ہونے والی ہیں۔ ہماری تجارت اور لین دین دستاویزی ہونے سے سی پیک کے ذریعے ہونے والے رابطے ضائع نہیں جائیں گے۔ افغان تنازع کا حل پاکستان کے لئے فوری طور پر 5ارب ڈالر کی افغان تجارت کے بحال ہونے کی نوید لا سکتا ہے۔ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان انخلاء کا معاہدہ ہوتا ہے تو بھارت اس سٹریٹجک طاقت سے محروم ہو سکتا ہے جس کے ذریعے وہ وسط ایشیا تک تجارتی راہداری کے لئے افغانستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ معاہدہ کی صورت میں نئی افغان حکومت پاکستان سے بھارت کے لئے مراعات کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ امریکہ ایک عیار دماغ ہے۔افغانستان سے انخلاء کو اپنی شرائط پر صلح ظاہر کرنے کے لئے وہ بعداز انخلا وہاں طاقت کے کسی ایک مرکز پر اکتفا نہیں کرنا چاہتا۔ زلمے خلیل زاد جیسے کئی معاونین مختلف منصوبوں پر بیک وقت کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھوربن میں افغان رہنمائوں کا اجلاس ہوا۔ ان رہنمائوں میں گلبدین حکمت یار بھی تھے۔ انخلاء کے بعد افغانستان کے امور کے بارے میں ان رہنمائوں کے درمیان کئی مشترکہ خیالات سامنے آئے۔ یہ سب لوگ کسی حد تک پاکستان دوست شناخت رکھتے ہیں۔ اشرف غنی اپنے لئے لابنگ کر رہے ہیں۔ وہ انخلاء کے بعد پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی پیشکش لے کر وزیر اعظم عمران خان سے ملے اور ان سے حمایت کی اپیل کی۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی الگ ایک دھڑا بنا کر روس اور چین کے ذریعے مستقبل میں اپنا کردار رکھنا چاہتے ہیں۔ بھارت کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اشرف غنی نے حالیہ دورہ میں پاکستان سے واہگہ کے راستے تجارت کی رعایت مانگی۔ کچھ گروپ ایران اور وسط ایشیا میں لابنگ کر رہے ہیں۔ یہ جاہ طلب دھڑے ہیں جو طاقت ملنے کی صورت میں اپنے حامیوں کو جوابی فوائد کی یقین دہانی کرا رہے ہیں۔ افغانستان کی آزادی کے لئے جنگ میں اکثر دھڑوں کا کوئی حصہ نہیں۔ طالبان اس صورت حال سے آگاہ ہیں۔ اس لئے وہ امریکہ کے مطالبے پر ہر بار افغان حکومت سے مذاکرات سے انکار کر دیتے ہیں۔ مذاکرات کے ساتویں مرحلے میں یقینا اہم کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے۔ ڈیوڈ بٹلر جیسے ترجمان کچھ بھی کہیں اصل معاملات پینٹاگان میں طے ہو رہے ہیں۔ ایک ڈیزائن تیار ہو چکا ہے۔ طالبان سے کچھ ضمانتیں درکار ہیں۔ پاکستان اور افغان رہنمائوں نے بھوربن میں ان ضمانتوں پر مشاورت کی ہے۔ صدر ٹرمپ وزیر اعظم عمران خان سے جب ملاقات کریں گے تو سارا منصوبہ مکمل ہو چکا ہو گا۔