واشنگٹن؍ اسلام آباد( ندیم منظور سلہری؍ خبرنگار خصوصی)وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ تمام فریقین، جنہوں نے افغان امن عمل میں اپنا مثبت کردار ادا کیا، وہ غیر حقیقی ٹائم لائنز کی مخالفت کریں کیونکہ افغانستان سے جلد بازی میں بین الاقوامی (غیرملکی فوجیوں) کا انخلا غیر دانشمندانہ اقدام ہوگا۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا کہ ہمیں ان علاقائی خرابیوں سے بھی بچنا چاہئے جو امن کی حالت میں سرمایہ کاری نہیں کرتے ہیں اور افغانستان میں عدم استحکام کو اپنے جغرافیائی سیاسی مقاصد کے لئے فائدہ مند سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ امریکہ کی طرح پاکستان کبھی افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز بنتے نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ نائن الیون کے بعد سے اب تک 80 ہزار سے زائد پاکستانی سکیورٹی اہلکار اور عام شہری دہشت گردی کے خلاف اپنی جانیں دے چکے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا پاکستان اب بھی افغانستان میں قائم بیرونی طور پر فعال دہشت گرد گروہوں کے ذریعے حملوں کے نشانے پر ہے ۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جنگ کے دوران سب سے بڑی قیمت پاکستان کے لوگوں نے ادا کی، 40 لاکھ افغان پناہ گزینوں کو رہائش دی، ملک میں اسلحہ اور منشیات پھیلی، اقتصادی شرح متاثر ہوئی اور پاکستان 60 یا 70 کی دہائی والا نہیں رہا۔وزیر اعظم نے کہا کہ اس تجربے نے ہمیں دو اہم سبق سیکھائے ، پہلا یہ کہ ہم جغرافیہ، ثقافت اور رشتہ داری کے ذریعے افغانستان سے بہت قریب ہیں اور ہمیں احساس ہوا کہ جب تک ہمارے افغان بہن بھائی امن میں نہیں ہوں گے ، پاکستان کو حقیقی امن نہیں ملے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام کو طاقت کے استعمال سے مسلط نہیں کیا جاسکتا ، صرف افغانستان کے سیاسی حقائق کو تسلیم کرنے والے افغان اور افغانستان کی زیرقیادت مفاہمت کا عمل ہی دیرپا امن قائم کرسکتا ہے ۔وزیر اعظم نے کہا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مجھ سے 2018 کے آخر میں افغانستان میں سیاسی تصفیے کے حصول میں مدد کی درخواست کی تو ہمیں امریکی صدر کو اطمینان دلانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا ہم نے ایسا ہی کیا، اس طرح امریکہ اور طالبان کے مابین مشکل مذاکرات کا آغاز ہوا جس کا اختتام فروری میں امریکی طالبان کے امن معاہدے پر ہوا، اس معاہدے کے نتیجے میں افغان قیادت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی بنیاد رکھی گئی ۔عمران خان نے کہا کہ ہم نے یہاں تک پہنچنے کے لئے جو راستہ طے کیا ، وہ آسان نہیں تھا لیکن ہمت اور لچک کی بدولت ہم دباؤ ڈال سکے جو ہر طرف سے ظاہر تھا۔انہوں نے کہا امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کابل اور طالبان کے مابین قیدیوں کے تبادلے میں آسانی پیدا کی اور افغانستان کی حکومت اور طالبان نے افغان عوام کے امن کے لئے مثبت جواب دیا۔وزیراعظم نے کہا انٹرا افغان مذاکرات اور بھی مشکل ہوسکتے ہیں جس کے لئے ہر طرف سے صبر اور سمجھوتے کی ضرورت ہے اور پیشرفت سست اور محنت طلب ہوسکتی ہے یہاں تک کہ کبھی کبھار تعطل بھی ہوسکتا ہے کیونکہ افغانی اپنے مستقبل کے لئے مل کر کام کرتے ہیں، ایسے وقتوں میں ہمیں یہ بات اچھی طرح سے یاد رکھنی چاہئے کہ مذاکرات کی میز پر تعطل دراصل میدان جنگ میں خونی تعطل سے کہیں زیادہ بہتر ہے ۔انہوں نے کہا کلیدی اقتصادی رابطوں کے منصوبوں میں ہماری حالیہ سرمایہ کاری کا فائدہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے مابین علاقائی اتحاد کے لئے کوششوں کی تکمیل سے ممکن ہے ۔انہوں نے کہا ان امور پر امریکی بین الاقوامی ترقیاتی فنانس کارپوریشن کے ساتھ ہماری ابتدائی گفتگو حوصلہ افزا رہی، یہ خوشی کی بات ہے کہ امریکہ اور پاکستان، افغانستان میں پائیدار امن کو یقینی بنانے کے لئے ایک ہی طرح سوچ رہے ہیں۔انہوں نے کہا پاکستان سمجھتا ہے کہ امن مذاکرات طاقت کی چھتری تلے کامیاب نہیں ہو سکتے ، پاکستان تمام فریقوں پر زور دیتا ہے کہ وہ تشدد کو کم کریں، جس طرح افغان حکومت نے طالبان کو ایک سیاسی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا، اسی طرح امید ہے کہ طالبان افغانستان حکومت کی کوششوں کو بھی تسلیم کریں گے ، امریکہ کی طرح پاکستان کبھی بھی افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کی ایک نئی پناہ گاہ بننے نہیں دیگا۔عمران خان نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ آئند دنوں کے لئے منصوبہ بندی شروع کردیں کہ دنیا افغانستان میں پائیدار امن کے لئے کس طرح مدد کرسکتی ہے ؟ ہم کیسے ایسے حالات پیدا کریں گے جو پاکستان اور دیگر ممالک میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کو وقار اور عزت کے ساتھ اپنے وطن واپس جانے کے قابل بنائے ؟علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے عالمی یوم سیاحت کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ سیاحت کا شعبہ دیہی علاقوں کی معاشی ترقی کے وسیع مواقع فراہم کرتا ہے جہاں پر اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ کی اشد ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیاحت نہ صرف دیہی آبادیوں کو روزگار کی فراہمی اور تجارت کے فروغ کے ذریعے بااختیار بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے بلکہ اس سے ان کو اپنی ثقافت اور تاریخی ورثے کے تحفظ میں بھی مدد ملتی ہے ۔ انہوں نے کہا قدیم ثقافت اور تاریخ کو محفوظ بنا کر لوگوں کو ثقافتی اور علاقائی روایات سے روشناس کرانے میں بھی مدد ملتی ہے ۔ وزیراعظم نے کہا تعلیم، سرمایہ کاری، جدت، ٹیکنالوجی اور روزگار کی دستیابی کو یقینی بنا کر سیاحت کی پالیسیوں میں دیہی ترقی کو شامل کیا جا سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاحت کے شعبے کی ترقی کی لاتعداد استعداد موجود ہے جس کا ابھی تک دنیا کو علم نہیں۔